میں اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہوں ، مجھے اور میری بیوی ہم دونوں کو اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے، سب اولاد میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جائیداد میں جو مکان ہے اس کو بیچنے کے بعد ہر ایک بیٹے اور بیٹی کو ہم جو حصہ رقم کی صورت میں دیں گے، ہم چاہتے ہیں کہ سب کو اس بات کا پابند کر دیں کہ اس رقم کو وہ جیب میں نہیں ڈالیں گے بلکہ اس سے کوئی جگہ خریدیں گے، پوچھنا ہے کہ کیا اولاد کو اس طرح پابند کرنا شرعاً جائز ہوگا یا نہیں؟نیز زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ بتا دیں۔
واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائے داد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، ہر جائز تصرف وہ اس میں کرسکتا ہے،اور اس کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائے داد میں کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر والد خود اپنی زندگی میں اپنی جائے داد خوشی ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہوں، تو ایسا وہ کرسکتے ہیں، نیز اپنی زندگی میں جو جائے داد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ہے، البتہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے، یعنی مثلاً کسی کی شرافت ودِین داری یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، بشرط یہ کہ دیگر اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو ، اسی طرح کسی کو بالکلیہ محروم کرنا بھی جائز نہیں۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اگر اپنا ملکیتی مکان فروخت کرکے اپنی خوشی ورضا سے اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائے داد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور اپنی بیوی کو آٹھویں حصہ کے بقدر دے دے اور باقی مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے۔نیز اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جو جائیداد تقسیم کرے، تو ہر ایک کو اس کا حصہ الگ الگ کرکے قبضہ وتصرف کے ساتھ مالک بناکر دے دے۔
باقی گفٹ کرتے ہوئے یہ شرط لگانا کہ : ” اس رقم سے کوئی جگہ خریدنا“ اس کا شرعا اعتبار نہیں ہے، گفٹ درست ہوجائے گا، اور شرط باطل ہوجائے گی، البتہ اولاد کی مصلحت کی خاطر ان سے ایک وعدہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اس رقم سے جگہ خریدیں، اور پھر اولاد پر اخلاقی لحاظ سے وعدہ کی پاسداری لازم ہوگی، اس کے خلاف کرنے پر وعدہ شکنی کا گناہ ہوگا، یا مشورہ دیا جا سکتا ہے، اگر اس پر عمل کر لیں بہتر، ورنہ کوئی چیز لازم نہیں ہو گی۔
شرح المجلہ میں ہے:
"کل یتصرف في ملکه کیف شاء".
(الفصل الاول فی بیان بعض قواعد فی احکام الاملاک، 4 /132، مادہ: 1192، ط: رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."
(کتاب الھبة، 5/ 696، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير اتقوا الله واعدلوا في أولادكم فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ."
(کتاب الوقف، 4/ 444، ط: سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."
(كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، 4 /378، ط: رشیدیة)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وإن وهب لرجل أمة على أن يردها عليه، أو على أن يعتقها، أو على أن يستولدها، أو وهب له دارا، أو تصدق عليه بدار على أن يرد عليه شيئا منها، أو يعوضه شيئا منها، فالهبة جائزة، والشرط باطل، كذا في الكافي، والأصل في هذا: "أن كل عقد من شرطه القبض فإن الشرط لا يفسده كالهبة والرهن".
(الباب الثامن في حکم الشرط في الهبة : 4/ 396، ط: حقانیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607102163
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن