بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

میری والدہ کو نانی کی میراث میں سے 20 لاکھ روپے ملے ہیں،والدہ چاہتی ہیں یہ رقم اپنی اولاد میں اپنی زندگی میں ہی تقسیم کردیں،میرے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے،میں ایک بیٹا ہوں اور میری تین بہنیں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا  زندگی میں تقسیم درست ہے اگر درست ہے تو تقسیم کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے ہر انسان کو اپنے مال و جائیداد میں جائز تصرف کا حق دیا ہے ، زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا کوئی ضروری نہیں، البتہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے مال و  جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ،اور یہ شرعا ہبہ (گفٹ) ہے ،تاہم زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد منقولہ وغیر منقولہ تقسیم کرنے کی صورت میں شرعًا بیٹا بیٹی میں برابری ضروری ہے ،یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیا جائے اتنا ہی بیٹی کو دیا جائے ۔نیز تقسیم کے بعد ہر ایک کا حصہ عملًا ہر ایک کے قبضہ میں دینا بھی ضروری ہے ،محض زبانی یا تحریری ہبہ کافی نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل  کی والدہ اپنی زندگی میں اپنی رضامندی اور خوشی سے مذکورہ رقم اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتی ہوں تو سب سے پہلےاپنے لیے جتنی رقم رکھنا چاہے رکھ لیں تاکہ ضرورت کے وقت کسی کی محتاجی  نہ ہو، اس کے بعد باقی رقم چار برابر حصوں میں تقسیم کرکے  تمام اولاد میں برابر سرابر تقسیم کردیں، کمی بیشی نہ کریں، البتہ اگر اولاد میں کوئی زیادہ خدمت گزار یا تنگدست یا دین دار ہو تو اسے دیگر کے مقابلے میں کچھ زیادہ دینا بھی جائز ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

''وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''.

(مشکاۃ المصابیح ، باب العطایا، ج:1، ص:261، ط: قدیمی)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، باب العطایا، ج:3، ص:193،  ط: دارالاشاعت)

مجمع الأنهر میں ہے:

"وفي السراجية وينبغي أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل عند أبي يوسف أن يعطيهم على السواء هو المختار كما في الخلاصة.

وعند محمد يعطيهم على سبيل المواريث، وإن كان بعض أولاده مشتغلا بالعلم دون الكسب لا بأس بأن يفضله على غيره، وعلى جواب المتأخرين لا بأس بأن يعطي من أولاده من كان عالما متأدبا ولا يعطي منهم من كان فاسقا فاجرا."

 (کتاب الهبة،2/ 358،ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں