میرے سسر کےنام پر ایک پلاٹ تھا، بعد ازاں سسر نے پلاٹ بیٹی کے صرف نام کردیا تاکہ جب میں مرجاؤں تو میری بیٹی میری اولاد کو شریعت کے مطابق سب کو اپنا اپنا حصہ دے دےجس کا جتنا شریعت میں حصہ بنتا ہے،اب وہ پلاٹ فروخت ہوگیا ،جس کی کل مالیت 71 لاکھ (7100000) روپے ہے ،اب میرے سسر اس 71 لاکھ کو اپنی زندگی ہی میں اپنی ساری اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتےہیں اور اپنے لئے بھی حصہ رکھنا چاہتےہیں،اولاد میں 3 بیٹے ،ایک بیٹی ہیں اور بیوی بھی حیات ہے ،یہ71 لاکھ ان اولاد اور والدہ کے درمیان کیسے تقسیم ہوں گے؟
واضح رہے کہ شریعت نے ہر انسان کو اپنے مال و جائیداد میں جائز تصرف کا حق دیا ہے ، زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا کوئی ضروری نہیں، البتہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ،اور یہ شرعا ہبہ (گفٹ) ہے ،تاہم زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کی صورت میں شرعًا بیٹا بیٹی میں برابری ضروری ہے، یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیا جائے اتنا ہی بیٹی کو دیا جائے ۔نیز تقسیم کے بعد ہر ایک کا حصہ عملًا ہر ایک کے قبضہ میں دینا بھی ضروری ہے ،محض زبانی یا تحریری ہبہ کافی نہیں ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے سسر اگر اپنی زندگی میں اپنی رضا اور خوشی سے اپنی مذکورہ رقم اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنے لیے جتنی رقم رکھنا چاہے رکھ لے،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے،پھر آٹھویں حصہ کے بقدر اپنی بیوی کو دے دے ،اس کے بعد باقی رقم اپنی اولاد(بیٹوں اور بیٹی) میں برابر تقسیم کردے،یعنی جتنی رقم ایک بیٹے کودے اُتنی رقم ہر بیٹی کوبھی دے، بلا وجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے اور نہ ہی کسی کومحروم کرے، البتہ اگر اولاد میں سےکسی ایک کواُس کی دین داری، خدمت گزاری یاتنگ دستی کی وجہ سے دیگر کی بنسبت کچھ رقم زیادہ دیناچاہےتو اس کی گنجائش ہے۔اور جس کو جو دے اُس پر اُسے مکمل قبضہ اور تصرف کااختیار بھی دے دے،صرف نام کردینا کافی نہیں ہوگا۔
مشکوٰۃ شریف میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم".
(مشکاۃ المصابیح، باب العطایا،ج:1، ص:261 ، ط: قدیمی)
ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔
(مظاہر حق،باب العطایا ، ج: 1، ص:193ط: دارالاشاعت)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية".
(کتاب الھبة، الباب السادس في الهبة للصغير، 391/4، ط: رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".
(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144610100593
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن