بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ


سوال

ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں،والد صاحب زندہ ہیں ۔ والد صاحب کا ایک گھر  120 گز کاہے اور ساٹھ گز کی ایک دکان ہے۔ ہم چار بھائی بہنوں کا اس میں شرعی حصہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ والد کی زندگی میں اولاد  کا ان کی جائیداد میں کوئی مالکانہ حق اورحصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو اس کی جائیداد میں مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے، تاہم اگر جائیدادکامالک اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ا وررضا مندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کو ہبہ کرنے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری، مساوات اور انصاف کا پہلو اختیار کرے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد صاحب  خوشی سے اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سےپہلے اس مکان اور جائیداد  کی قیمت میں سے اپنے لیےجس قدر حصہ رکھنا چاہے رکھ لے ، تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور کسی کا محتاج ہونا نہ پڑے، اس کے بعد بقیہ حصےاپنی اولاد کے درمیان برابر برابرتقسیم کر ے،یعنی جتنا بیٹوں کو دےاتنا ہی بیٹیوں کو بھی دے، شرعی وجہ کے بغیرکمی زیادتی نہ کرے۔

درر الحکام میں ہے:

"يتصرف صاحب الملك المستقل في ملكه كيفما شاء."

(كتاب الشركات، الباب الأول، الفصل الثاني، ج: 3، ص: 66، ط: دار الجيل)

وفيه ايضاً:

"القبض في الهبة كالقبول في البيع بناء عليه تتم الهبة إذا قبض الموهوب له."

(الکتاب السابع الھبة، الباب الأول، الفصل الأول، ج: 2،ص: 406، ط: دار الجيل)

مرقاة المفاتيح ميں ہے:

"قال النووي: " فيه استحباب التسوية بين الأولاد في الهبة فلا يفضل بعضهم على بعض سواء كانوا ذكورا أو إناثا، قال بعض أصحابنا: ينبغي أن يكون للذكر مثل حظ الأنثيين، والصحيح الأول لظاهر الحديث فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي، ومالك، وأبي حنيفة - رحمهم الله تعالى - أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة."

(کتاب البیوع، باب العطایا، ج:5، ص: 2009، رقم: 3019، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607101942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں