ایک شخص نے انتقال سے کچھ روز قبل اپنے اہلِ خانہ سے کہا کہ میرے پاس بینک میں جو ر قم ہے، میں نے اس کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور یہ رقم میں نے سب کو برابر دے دی ہے، ایک حصہ میرا اور ایک حصہ میری بیوی کا اور باقی چھ حصے میری اولا کے، اب تم سب اپنے اپنے شناختی کارڈ لے آؤ اور اپنے اپنے حصے کی رقم لے لو اور یہ بات انہوں نے اپنے پورے ہوش وحواس میں کی، چوں کہ وہ بیمار تھے اس لیے ان کی اولاد نے یہ اچھا نہیں سمجھا کہ اس وقت ہم اپنے والد سے یہ رقم لیں، اور پھر کچھ دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اب یہ رقم ان کے کہنے کے مطابق تقسیم ہوگی یا شرعی وراثت کے طور پر تقسیم ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نےزندگی میں رقم تقسیم کرنے کے ارادے سے اپنے شرعی ورثاء کے حصے تو متعین کردیے تھے لیکن کسی کو بھی اس کا حصہ حوالے نہیں کیا تھا اور اس سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوگیا، تو محض حصے متعین کرنے سے متعین کردہ حصص کے مطابق یہ رقم ورثاء کی ملکیت نہیں ہوگئی بلکہ بدستور اسی شخص کی ملکیت رہی، جسے انتقال کے بعد شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور سب ہی باہمی رضامندی سے مرحوم کے طے کردہ حصص کے مطابق یہ رقم تقسیم کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
درر الحکام میں ہے:
"يتصرف صاحب الملك المستقل في ملكه كيفما شاء."
(كتاب الشركات، الباب الأول، الفصل الثاني، ج: 3، ص: 66، ط: دار الجيل)
وفيه أيضاً:
"القبض في الهبة كالقبول في البيع بناء عليه تتم الهبة إذا قبض الموهوب له."
(الکتاب السابع الھبة، الباب الأول، الفصل الأول، ج: 2،ص: 406، ط: دار الجيل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605101596
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن