ہم پانچ بھائی اور ایک بہن تھے، والدہ کے دو مکان تھے ایک گاؤں میں ایک کراچی میں ،والدہ نے جو گھر کراچی میں ہے اس میں سے آدھا میرے نام کردیا تھا اور میں والدہ کی حیاتی میں اپنی فیملی کے ساتھ اس میں رہ رہا تھا(والدہ نے جو یہ گھر دیا تھا یہ مکمل طور پر الگ تھا دوسرے حصے سے درمیان میں دیوار کھڑی تھی) اور دوسرے آدھے میں والدہ خود رہ رہیں تھیں ،پھر والدہ نے اس گھر کا وہ حصہ جس میں وہ رہ رہیں تھیں اس بھائی کو دے دیا جو ان کے ساتھ رہتا تھا(لیکن والدہ بدستور اس بیٹے کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہیں تھیں) اور گاؤں والا گھر ایک بھائی کو دے دیا ،والدہ کے اس دینے پر باقی 2 بھائی اور بہن راضی تھے ،ان میں ایک بھائی کا والدہ سے پہلے انتقال ہوا اور پھر والدہ کا انتقال ہوا اور بہن کا ڈھائی سال قبل انتقال ہوا (جس کے ورثاء میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں اور ان کے شوہر کا سات سال قبل انتقال ہوا ہے)،اب جس بھائی کا انتقال ہوا جسے والدہ نے کچھ دیا نہیں تھا اور وہ باقیوں کو دیے جانے پر راضی بھی تھا ان کی اہلیہ اپنے شوہر کے حصے کا مطالبہ کررہیں ہیں کہ اگرچہ میرا شوہر اس وقت راضی تھا لیکن اب مجھے اس کا حصہ دیا جائے ،شرعاً کیا بھابھی کو بھائی کا حصہ ملے گا ؟
زندگی میں جو چیز والدین اپنی اولاد کو دے دیتے ہیں وہ ہدیہ اور ہبہ شمار ہوتی ہے اور اس میں ان کی ملکیت آجاتی ہے،ليكن اگر شئ موھوب(جس چیز کو ہبہ کیا جائے)کا مکمل قبضہ موھوب لہ(جس کو ہبہ کیا جائے) کو نہ دیا جائے تو وہ ہبہ تام نہیں ہوتا ہے اور اس میں واھب کی ملکیت باقی رہتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں والدہ نے اپنی زندگی میں جو مکانات کی تقسیم کی ان میں سائل کو جو مکان دیا اور جو مکان گاؤں والا ایک اوربیٹے کو دیا وہ تو ان کا ہوگیا، کیوں کہااسے مکمل قبضہ دے دیا تھا اس میں ان کی ملکیت بھی آگئی،لیکن جس مکان میں والدہ رہ رہیں تھیں اور وہ ساتھ رہنے والے بیٹے کو دیا تو چونکہ اس مکان کے ہبہ کرنے میں قبضہ تام نہیں دیا گیا اس لیے یہ ہبہ صحیح نہیں ہوا اور والدہ کی ملکیت اس مکان میں بدستور باقی رہی ہے لہذا یہ مکان والدہ کا ترکہ شمار ہوگا اور اس کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ سے مرحومہ کے حقوق متقدمہ (تجہیز وتکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر ان کے ذمہ قرض ہو تو اسے پورے ترکہ میں سے ادا کرنےکے بعد، اگرمرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں اس وصیت کو نافذ کرنے کے بعدکل منقولہ و غیر منقولہ ترکہ کو27حصوں میں تقسیم کرکے 6،6حصے ہر ایک بیٹے کو اور2 حصے میت کے نواسے کواور1 حصے میت کی نواسی کو ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت(والدہ) :9 / 27
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 1 |
6 | 6 | 6 | 6 | فوت شدہ |
میت(بہن):3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مف:1
بیٹا | بیٹی |
2 | 1 |
یعنی گھرکی مالیت کا22.22 فیصد ہر ایک بیٹے کو،7.40فیصد نواسے کو اور3.70فیصد نواسی کو ملے گا۔
لیکن چونکہ بعض اولاد کو والدہ نے کچھ نہیں دیا اس لیے یہ غیر منصفانہ تقسیم جائز نہیں تھی، اس کی تلافی کے لیے بہتر یہ ہے کہ جن کو حصہ ملا ہے، وہ کچھ حصہ ان بھائی کو دے دیں جن کو والدہ نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں دیا، اس بناء پر جن بھائی کا انتقال ہوگیا تھا اور جسے والدہ نے کچھ نہیں دیا تھا اگر انکی اہلیہ کو بھائی بہن اپنے بھائی کی نسبت کی وجہ سے بطور تبرع کے اپنی طرف سے کچھ دیتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے بھابھی کے ساتھ ساتھ والدہ کے ساتھ بھی حسن سلوک اورنیکی کا ذریعہ ہوگا ۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض."
(کتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج:6، ص:127، ط: دار الکتب العلمیہ)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101543
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن