میں اپنی زندگی میں اپنی خوشی سے اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہوں، میرے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، میرے پاس 98 لاکھ روپے، 16 تولہ سونا ہے اور دو کواٹر ہے جن میں پانچ پورشن ہے، میں اپنے بیٹوں کے ساتھ رہتا ہوں، اب بیٹوں کےدرمیان لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں، بیٹیاں اپنے گھروں میں ہے، ان کواٹروں کی قیمت ایک کروڑ روپے ہے، ان سب کو ملا کر دو کروڑ تیس لاکھ روپے بنتی ہے۔
اب یہ ہے کہ مذکورہ جائیداد ورثاء میں کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟
اور کیا میں کچھ رکھ سکتا ہوں؟
واضح رہے کہ مالک اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد کا خود ہی مالک ہوتا ہے، اور اپنے مال میں ہر طرح کے جائز تصرف کا حق رکھتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائل اپنی خوشی اور دلی رضامندی سے اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے، تو کرسکتاہے، یہ تقسیم ہبہ یعنی گفٹ ہے وراثت نہیں ، لہذا اس تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ سائل بقدر ضرورت اپنے لئے رکھ لےتاکہ ضرورت کے موقع پر کام آئے، اگر بیوی حیات ہے، تو آٹھواں حصہ ان کو دیدے، اور اگر بیوی کو زیادہ دینا چاہے تو چوتھے حصہ تک دے سکتا ہے، بقیہ تمام اولاد یعنی لڑکوں اور لڑکیوں میں برابر برابر تقسیم کردیں، تاکہ اولاد کے درمیان عدل وانصاف قائم رہے، اور کسی کو شکایت بھی نہ ہو، شرعاً بلاوجہ اولاد کے درمیان کمی بیشی نہ کرے ورنہ گناہ گار ہوگا، اور اس صورت میں تقسیم غیر منصفانہ ہوگی، البتہ اولاد میں سے کسی کو معقول شرعی عذر یعنی کسی کی شرافت دین داری، محتاجی یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بناء پر اس کو دوسروں کے بنسبت کچھ زائد دینا چاہے تو سے سکتا ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية: أنه قال: «أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى قال: «فلا إذن» . وفي رواية: أنه قال: أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟» قال: لا قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» . قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: أنه قال: لا أشهد على جور."
ترجمہ:”نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا، میں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو (برابر) اس طرح کا ہبہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے واپس لے لو۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم پسند کرتے ہو کہ وہ سارے تیرے ساتھ مساوی حسن سلوک کریں؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر تم ایسے کیوں نہیں کرتے؟“ ایک روایت میں ہے، انہوں نے کہا: میرے والد نے مجھے ایک عطیہ دیا تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ (میری والدہ) نے کہا: میں راضی نہیں حتی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنا لو۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو عرض کیا: میں نے عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ سے اپنے بیٹے کو ایک عطیہ دیا ہے اور اللہ کے رسول! اس نے کہا ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی باقی اولاد کو بھی اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، وہ واپس آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ “ متفق علیہ۔“
(كتاب البيوع، باب العطايا، الفصل الأول، ج:2، ص:909، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن