بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا


سوال

میں 73 سال کا ریٹائرڈ آدمی ہوں،صحت ٹھیک نہیں رہتی، میری ایک ذاتی جائیداد ہے مکان کی شکل میں ،80 گز کا مکان ہے جو نارتھ کراچی میں ہے، جس کی مالیت 70، 75 لاکھ کے قریب ہے ،اپنے انتقال کے بعد اسے فروخت کرواکر ورثے میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔میرے چھ جوان بیٹے اور بیٹیاں ہیں،تین بیٹیاں شادی شدہ بچوں والی ہیں، اور ایک بیٹا شادی شدہ ہے بچے والا ہے ،دو بیٹے بے روزگار غیر شادی شدہ ہیں جوان  ہیں ، معلوم یہ کرنا ہے رقم کی تقسیم کتنے حصوں میں ہوگی ؟اور اگر میری ہی زندگی میں فروخت ہو جاتی ہے تو کیا شرح ہوگی اور میرا حصہ شامل ہوگا یا نہیں؟

نوٹ:میری اہلیہ بھی حیات ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں80گز کا مکان یا اس کی قیمت اگر سائل اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد میں خوشی ورضاسے  تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہبہ(گفٹ)کہلاۓ گااور تمام بیٹوں اور بیٹیوں میں برابری ضروری ہوگی،اورحدیثِ مبارکہ میں آپﷺنےاولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کا حکم دیا ہے۔

اپنی زندگی میں تقسیم کا  شرعی  طریقہ کاریہ ہے کہ صاحب جائیداد   یعنی سائل اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال  میں سے بیوی کو    آٹھویں حصہ  کے بقدر دے دے، اور باقی اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ صاحبِ جائیداد گناہ گار ہوگااور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

البتہ  اولاد میں سے کسی ایک کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہےاسی طرح اگر صاحبِ جائیداد  اپنی  زندگی میں اپنی بعض  اولاد  کو کچھ دینا چاہے اور دوسرے   دل سے رضامند ہوں کہ ان کو دیا جانے والا حصہ اوروں کو دیا جائے اوران پر کسی قسم کا دباؤ وغیرہ نہ ہو اور صاحبِ جائیداد کا مقصد بھی ان اولاد کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا نہ ہو ، بلکہ کسی بنا پر وہ اپنے بعض بچوں کو کچھ دے رہا ہے تو  یہ جائز ہے۔

انتقال کے بعد کی تقسیم کا سوال قبل از وقت ہے ، تاہم اگر کسی شخص کا انتقال ہو اور بیوہ اور اولاد ہوتواس کے مال کا آٹھواں حصہ بیوہ کو ملتا ہے اور بقیہ مال اولاد میں اس طور پر تقسیم کیا جاتا ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں کی بہ نسبت دگنا حصہ ملتا ہے ۔ 

مؤطا امام مالك ميں هے:

"عن النعمان بن بشير، إن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ‌إني ‌نحلت ‌ابني ‌هذا ‌غلاما كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكل ولدك نحلت مثل هذا؟ فقال: لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فأرجعه."

ترجمه:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔"

(‌‌كتاب النحل والعطية،باب ما لا يجوز من النحل والعطية،ج:2ص:483،ط:مؤسسة الرسالة بيروت)

الدر مع الردمیں ہے:

"وفي الخانية ‌لا ‌بأس ‌بتفضيل ‌بعض ‌الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثمقوله( قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي."

(کتاب الھبۃ،ج:5،ص:696،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں