بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کی وصیت کرنا


سوال

میری پھوپھی کا ایک مکان ہے ،جس کی مالیت 60/70 لاکھ روپے ہے ،اور اس میں میری پھوپھی رہائش پذیر ہے ،ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ،ان کا حصہ کیسے بنے گا؟ میری پھوپھی نے ماضی میں غلطی میں یہ بات کر دی تھی کہ سارا میرے بیٹے کو ملے اور بیٹیوں سے سائن بھی کروا دیےکہ آپ لوگ دستبردار ہو جاؤ،مگر میری پھوپھی اب یہ کہہ رہی ہیں کہ مجھ  سے  غلطی ہو گئی ہے اور اب میں یہ چاہتی ہوں کہ بیٹے اور بیٹیوں کو شریعت کے مطابق حصہ ملے،اس سلسلے میں راہ نمائی درکار ہے۔

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ، نیز والدین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد  میں شرعی طور پر حصہ نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک آپ کی پھوپھی حیات ہیں تب تک یہ مکان انہی کی ملکیت ہے، اس میں ان کی اولاد کا ایسا حق نہیں ہے کہ جسے اپنی زندگی میں ان کے حوالے کرنا ضروری ہو، اس لیے یہ سوال بے کار ہے کہ پھوپھی کی زندگی میں ان کے بیٹے اور بیٹیوں کا اس مکان میں کتنا حصہ بنتا ہے، باقی آپ کی پھوپھی کا اپنی بیٹیوں کو اپنی جائیداد میں سے کچھ دیے بغیر انھیں بیٹے کے حق میں جائيداد سے دست بردار کرانا جائز نہیں تھا، ایسا کرنے سے بیٹیوں کا جائيداد میں سے حصہ ختم نہیں ہوا تھا، بلکہ تب بھی وہ اپنی ماں کی جائيداد کی حق دار هوں گي، اب جب کہ آپ کی پھوپھی  اپنی اس غلطی کو درست کرنا چاہتی ہیں تو بیٹے کو شرعی حکم اور اپنے فیصلے سے آگاہ کردیں اور بیٹے کو  یہ وصیت کردیں کہ میری وفات کے بعد میراث کے شرعی قانون کے مطابق ترکہ تقسیم کرتے ہوئے اپنی بہنوں کو ان کا شرعی حق دے اور لکھی ہوئی تحریر کو کالعدم کردے۔

 مشکاة المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: "أكل ولدك نحلت مثله؟" قال: لا قال: "فأرجعه."  وفي رواية ...... قال: "فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم." 

(باب العطایا،ج:1،ص:261، ط: قدیمی)

ترجمہ:’’حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة، رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266 ط: قدیمی)

ترجمہ :’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔‘‘

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الهبة،ج:5 ، ص:690، ط:سعید)

 تکملة رد المحتار  لمحمد علاء الدین   میں ہے: 

"الإرث جبري لايسقط بالإسقاط ... الخ."

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی ،ج:5، ص:505، ط:سعید) 

بدائع الصنائع میں ہے:

" لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(کتاب الحدود،  ج: 7،  ص:57، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں