میرے پانچ بچے ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ،میں کاروبار کرتاتھا اور میرے ساتھ میرے دونوں بیٹے بھی شامل تھے، پھر میں نے دونوں بیٹوں کو اپنے اثاثوں میں سے حصہ دے کر فارغ کردیا۔
پھر میں اکیلا کاروبار کرنے لگااور میں نے سب بچوں کو بلا کرسب کی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا کہ اب جو میں کاروبار کررہاہوں اور بقیہ اثاثے اس میں صرف میری بیٹیوں کا حصہ ہے، ان میں بیٹوں کا کوئی حق نہیں، میرے مرنے کے بعد بیٹوں کو ان میں سے کوئی حصہ نہیں ملےگا۔
میری بیوی بھی حیات ہیں ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں نے یہ درست فیصلہ کیا ؟اگر میرا فیصلہ غلط ہو تو اب میں کیا کروں ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے بیٹوں کو جائیداد میں سے حصہ دیتے وقت یہ صراحت کردی تھی کہ یہ تمہارا میراث کا حصہ ہے، میرے مرنے کے بعد باقی جائیداد میں تمہارا حصہ نہیں ہوگا اور بیٹوں نے اس پر رضامندی بھی ظاہر کردی تھی تو سائل کے بیٹوں کو سائل کے انتقال کے بعد اس کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا،اس صورت میں سائل کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد میں دیگر ورثاء یعنی سائل کی بیوہ اور بیٹیوں کا حصہ ہوگا۔
لیکن اگر سائل نے بیٹوں کو حصہ دیتے وقت یہ صراحت نہیں کی تھی کہ یہ تمہارا میراث کا حصہ ہے اور میرے انتقال کے بعد جائیداد میں تمہارا حصہ نہیں ہوگا،بلکہ دیتے وقت بغیر معاہدہ کے ہدیہ کیا تھا اور بعد میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ انتقال کے بعد جائیداد میں صرف بیٹیوں کا حصہ ہے تو اس صورت میں سائل کے بیٹوں کو بھی دیگر ورثاءکے ساتھ سائل کی میراث میں سے حصہ ملے گا ۔
لہذا سائل نے جو یہ فیصلہ کیاہے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد وغیرہ میں صرف بیٹیوں کا حصہ ہے تو یہ درست نہیں ہےاور نہ ہی شرعًا معتبر ہے ؛اس لیے کہ بیٹیوں کے ساتھ سائل کی بیوہ بھی ورثاء میں داخل ہے اور اس کو شرعًا سائل کی وراثت میں سے حصہ ملے گا ،نیز اگر بیٹوں کو حصہ دیتے وقت ان سے یہ معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ سائل کے انتقال کے بعد ان کا حصہ نہیں ہوگا تو بیٹوں کو بھی وراثت میں سے حصہ ملےگا۔
نیز اس صورت میں سائل کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں میں سے ہر ایک کو بھی اپنی جائیداد میں سے اتنا اتنا حصہ دے دے جتنا ایک بیٹے کو دیا ہے،اس کے بعد باقی جائیداد اپنی ملکیت میں رہنے دے ،تاکہ بیٹیوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔
باقی سائل کو اپنی جائیداد سے متعلق اپنی زندگی میں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؛ اس لیے کہ سائل کی جائیداداس کے انتقال کے بعد خود بخود شرعی قانون ِ میراث کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم ہو گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم وقيل لا اهـ".
(كتاب الوصايا،6/ 655، ط:سعید)
جامع الفصولین میں ہے:
"(جف) جعل لأحد بنيه دارا بنصيبه على أن تكون له بعد موت الأب ميراثا قيل: جاز وبه أفتى بعضهم وقيل: لا."
(الفصل الرابع والثلاثون في الأحكامات، باب الوصية،2/ 190، ط : اسلامي كتب خانة)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، و إن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى."
(کتاب الهبة، فصل في هبة الوالد لولده، 3/150، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن