اگر کسی کے والد کا انتقال ہوگیا ہو اور اس پر قرض ہو اور جس کا مقروض ہو اس کا بھی انتقال ہو گیا ہو تو اس کے قرض کی ادائیگی اس کی بیٹی اپنی زکاۃ سے کر سکتی ہے؟
کسی مرحوم کا قرضہ زکو ٰۃسے ادا کرنا جا ئز نہیں، کیوں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق زکوٰۃ کو مال زکوٰۃ مالک بنا کر دینا ضروری ہوتا ہے، جب کہ مرحوم میں کسی چیز کے مالک بننے کی اہلیت نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کی بیٹی اپنی زکوٰۃسے والد مرحوم کا قرضہ ادا نہیں کرسکتی ۔
الدر المختار میں ہے:
"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."
(كتاب الزكوٰة، ج:2 ،ص:256، ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلايتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولادًا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد".
(كتاب الزكاة، ج:2، ص: 346، ط: ایچ ایم سعید)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(کتاب الزکوٰۃ، الباب الأول فی تفسیر الزکوٰۃ، ج:1، ص:170، ط: دار الفکر بیروت)
وفیہ ایضا:
''لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."
(کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ج:1، ص: 188، ط: رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100699
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن