ایک مدرسہ ہے جس میں مدرسہ اور اسکول یعنی دینی و دنیاوی دونوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور یہاں ایک بڑی تعداد مستحق طلبہ کی ہے، جن کے والدین اپنے بچوں کی تعلیمی فیس یا دیگر ضروریات، کتابیں، کاپیاں وغیرہ کے اخراجات کو پورے نہیں کرسکتے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان کے اخراجات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا زکات کی مالیت کا استعمال جائز ہے؟
یا زکات کی مالیت صرف مدرسے کے استعمال میں لے سکتے ہیں؟کہ زکات سے مدرسے کے اخراجات پورے کردیے جائیں اور حال یہ ہے کہ بعض والدین اصرار بھی کرتے ہیں کہ ہمیں زکات، خیرات کی سہولت سے مدد پہنچائی جائے۔اگر مستحق بچوں کی تحقیق کرکے منتخب کرلیے جائیں کہ ان بچوں کے اخراجات زکات سے پورے ہوں تو کیا حکم ہوگا؟
جن بچوں کے والدین اسکول اور مدرسہ کی ماہانہ فیس ادا نہیں کرپاتے، یا کتابیں نہیں خرید پاتے اگر وہ زکات کے مستحق ہوں تو انہیں زکات اور صدقاتِ واجبہ کی رقم دینا جائز ہوگا جسے وصول کرنے کے بعد وہ اپنے بچوں کی اسکول ومدرسہ کی فیس ادا کردیں اور کتابیں خرید لیں، یا جیسے چاہیں اس کو استعمال کریں، زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجائے گی۔اسی طرح اگر زکات کی رقم سے کتابیں اور اسٹیشنری وغیرہ خرید کر انہیں ان چیزوں کا مالک بنادیا جائے تو بھی زکات ادا ہوجائے گی۔
زکات کی رقم براہِ راست مدرسہ یا اسکول کی فیس کی مد میں دینا درست نہیں، کیوں کہ اس میں مستحق کو تملیک (مالک بنانا) نہیں پایا جاتا؛ جو کہ زکات میں شرط ہے۔ہاں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ طلبہ کی زکات وصول کرنے اور اس سے فیس ودیگر ضروریات مکمل کرنے کے لیےادارے کواپنا وکیل نامزد کردےاور وکیل زکات وصول کرکے مستحق طلبہ کی طرف سے فیس وغیرہ ادا کردے۔
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه، وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه."
(کتاب الزکاۃ، فصل: رکن الزکاۃ،ج2،ص39، ط: دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100877
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن