بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زوجین کے درمیان تین طلاق دینے یا نہ دینے میں اختلاف کی صورت میں تحکیم


سوال

میرے شوہر نے گھریلوں جھگڑوں کے درمیان  مجھے  2  بار ایک ساتھ طلاق دی،پھر تھوڑے وقفے کے بعد  4  بار طلاق طلاق بولا ۔۔۔ کیا تینوں طلاق واقع ہو گئیں؟  شوہر منکر ہے ۔شوہر اب قسم کھا رہا ہے کہ میں نے صرف 2 بار طلاق کہی بس!

جواب

صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کے بیان میں تضاد ہے، اگر آپ (بیوی) کا بیان حقیقت پر مبنی ہے تو تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، لیکن اگر شوہر صرف دو طلاق دینے کا دعوی کر رہا ہو تو  گویا بیوی تین طلاق کی مدعیہ ہے اور شوہر تین طلاق کا منکر ہے۔  اور ایسے اختلاف کی صورت میں دونوں (میاں، بیوی)  پر لازم ہے کہ کسی مستند عالمِ دین یا مفتی کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ ثالث مقرر کریں، پھر بیوی  اس کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کرے  اور ثالث اس سے اس کے دعوی پر دو گواہ طلب کرے، اگر وہ گواہ پیش کردے تو  وہ  بیوی پر طلاق  واقع ہونے کا فیصلہ کردے ،  اور اگر  بیوی شرعی گواہ  پیش  نہ کرسکے تو بیو ی کے مطالبہ پر شوہر  پر قسم آئے گی،  اگر شوہر قسم اٹھالیتا ہے  تو  ثالث تیسری طلاق واقع  نہ ہونے کا فیصلہ کرے ۔

         تاہم اس صورت میں اگر فیصلہ شوہر کے حق میں آجائے اور  شوہر ایک طلاق کے بعد رجوع کرلیتا ہے تو اس صورت میں بھی  اگر بیوی نے طلاق کے الفاظ خود اپنے کانوں سے سنے ہوں تو  بیوی کے لیے شوہر کو اپنے قریب آنے دینا جائز نہیں ہوگا، بلکہ یہ ضروری ہوگا  کہ  کسی طرح شوہر سے گواہوں کی موجودگی میں زبانی طلاق  لے کر یا تحریری طلاق لے کر یا  شوہر  سے خلع کا معاملہ کرکے  اپنے آپ کو شوہر کے نکاح سے آزاد کرالے۔

         اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."

(15/ 350، کتاب الدعویٰ، ط: إدارۃ القرآن)

       الفتاوى الهندية  میں ہے:

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."

(3/397، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، ط؛ رشیدیہ)

         فتاوی شامی میں ہے:

"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلاينافي ما قبله."

(3/251، باب الصریح، کتاب الطلاق، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں