زوجین کے درمیان بذریعہ طلاق فرقت واقع ہوئی، اُن کا ایک بچہ تھا، فرقت کے وقت بچے کی عمر ایک ماہ تھی، بچہ اُس کی والدہ کو دیا گیا، مگر اُس نے بچے کو واپس کردیا کہ وہ اس کی پرورش کی استطاعت نہیں رکھتی، اور اس پر بہت زیادہ جنات کے اثرات بھی تھے۔ بچہ کو اُس کی دادی اور پھوپھیوں کے حوالے کردیا گیا۔
پھر کچھ عرصہ بعد بچے کے والد کی دوسری شادی ہوگئی، اُس وقت بچے کی عمر ایک سال تھی، شادی کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ بچے کی ساری ذمہ داری بچے کے دادا دادی اور پھوپھیوں پر ہے۔ شادی کے بعد دوسری بیوی گھر میں مسائل پیدا کرنے کی وجہ سے بچے کے والد کو لے کر الگ ہوگئی اور بچہ اپنے دادا دادی اور پھوپھیوں کے ساتھ ہی رہتا رہا، اور وہی تمام اخراجات برداشت کرتے رہے۔
اب بچے کے اسکول داخل کروانے کا مرحلہ آیا تو اس میں بھی بچے کی سوتیلی ماں نے مسائل کھڑے کردیے، اور اب اُن کا کہنا ہے کہ بچے کو اس کے والد اور سوتیلی ماں کے حوالے کردیا جائے، حالاں کہ بچہ ان کے ساتھ بالکل مانوس نہیں ہے، بلکہ ڈرتا ہے کہ وہ مارتی ہے، نیز دادی اور پھوپھیاں بھی کسی صورت بچے کو اُن کے حوالے کرنا نہیں چاہتیں۔
لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ زیر نظر مسئلہ میں بچے کی حضانت کا مسئلہ بیان فرمادیں، عین نوازش ہوگی۔
واضح رہے کہ بچے کی عمر سات سال ہونے تک اُس کی پروش کا حق اُس کی والدہ کو حاصل ہوتا ہے، بشرط یہ کہ عورت بچے کے کسی غیر محرم سے شادی نہ کرے (اگر شادی کرلے تو پھر سات سال تک بالترتیب پہلے بچے کی نانی اور پھر دادی کو پرورش کا حق حاصل ہوتا ہے)، اور سات سال کی عمر کے بعد بچے کا والد اُس کی تربیت کا حق دار ہوتا ہے، البتہ بچہ جب تک اپنی والدہ کی پرورش میں ہے تو بچے کے والد کو، اور جب والد کی پرورش میں ہو تو اس کی والدہ کو، بچے سے ملاقات کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، نیز بچہ کی پیدائش کے بعد سے لے کر اُس کے بالغ ہو کر کمانے کے قابل ہوجانے تک، اُس کا خرچہ (نان ونفقہ) اُس کے والد کے ذمہ لازم ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکوہ بچہ اگر سات سال سے کم عمر ہے، اور بچے کی والدہ اور بچے کی نانی بھی اُس کی پرورش کرنے سے انکار کرتی ہیں، تو ایسی صورت میں بچے کی پرورش کا حق اُس کی دادی کو ہے، اور بچہ جب تک سات سال کا نہیں ہوجاتا، تب تک بچے کا والد اُسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، بلکہ بدستور بچہ اپنی دادی کے پاس ہی رہے گا، تاہم بچے کے تمام اخراجات بچے کے والد کے ذمہ ہیں۔ پھر جب بچہ سات سال کی عمر کا ہوجائے، تو اُس کی پرورش کا حق والد کو ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.
وقال عليه في الرد: (قوله: ولو جبرا) أي إن لم يأخذه بعد الاستغناء أجبر عليه كما في الملتقى. وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية. اهـ".
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ٣ / ٥٦٦. ط: سعيد)
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم".
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ١/ ٥٤١، ط: دار الفکر)
وفيه أيضاً:
"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول".
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ١/ ٥٤٢، ط: دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر.
وقال عليه في الرد: (قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن (قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم ... (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية".
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ٣/ ٦١٢، ط: سعيد)
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة ... وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد ... ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان".
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٠-٥٦٢، ط: دار الفكر)
وفيه أيضاً:
"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي".
(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ١/ ٥٤٣، ط: دارالفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن