بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ذو القرنین نبی ہیں یا ولی ؟


سوال

 ذوالقرنین کون تھے نبی تھے یا ولی؟

جواب

ذوالقرنین کے نبی ہونے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں ،البتہ مومن صالح ہونے میں سب کا اتفاق ہے ،قرآن کریم میں واقعہ ذوالقرنین محض اس قدر ہے  کہ وہ ایک صالح عادل بادشاہ تھے جو مشرق و مغرب میں پہنچنے اور ان کے ممالک کو فتح کیا اور ان میں عدل و انصاف کی حکمرانی کی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہر طرح کے سامان اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے عطاء کر دیئے گئے تھے ،انہوں نے فتوحات کرتے ہوئے تین اطراف میں سفر کئے ،مغرب اقصی تک اور مشرق اقصی تک پھر جانب شمال میں کوہستانی سلسلے تک، اسی جگہ انہوں نے دوپہاڑوں کے درمیانی درے کو ایک عظیم الشان آہنی دیوار کے ذریعہ بند کردیا جس سے یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج سے اس علاقہ کے لوگ محفوظ ہوگئے ۔

باقي وہ نبی تھے یا نہ تھے ،کس زمانہ میں تھے ،کس ملک میں تھے ،اس   کو قرآن میں ذکر کیا گیا ہے نہ  کسی صحیح احدیث میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے ،اور نہ ہی صحابہ ،تابعین اور سلفِ صالحین میں کسی نے  اس کے بیان کرنے کی طرف خاص توجہ دی ہے ۔

معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 

"واقعہ ذوالقرنین کا جتنا حصہ قرآن کریم نے بتلایا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ وہ ایک صالح عادل بادشاہ تھے جو مشرق و مغرب میں پہنچنے اور ان کے ممالک کو فتح کیا اور ان میں عدل و انصاف کی حکمرانی کی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہر طرح کے سامان اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے عطاء کر دیئے گئے تھے ،انہوں نے فتوحات کرتے ہوئے تین اطراف میں سفر کئے ،مغرب اقصی تک اور مشرق اقصی تک پھر جانب شمال میں کوہستانی سلسلے تک، اسی جگہ انہوں نے دوپہاڑوں کے درمیانی درے کو ایک عظیم الشان آہنی دیوار کے ذریعہ بند کردیا جس سے یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج سے اس علاقہ کے لوگ محفوظ ہوگئے ۔

یہود نے جو سوال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت اور نبوت کا امتحان کرنے کے امتحان کرنے کے لئے پیش کیا تھا وہ اس جواب سے مطمئن ہوگئے، انہوں نے مزید یہ سوالات نہیں کئے کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا ،یہ کس ملک میں اور کس زمانے میں تھے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم تاریخ و قصص کا صرف اتنا حصہ ذکر کرتا ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دینا کا متعلق ہو یا جس پر کسی ضروری چیز کا سمجھنا موقوف ہو ،اس لئے نہ قرآن کریم نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کی یہ تفصیلات بیان کی گئیں اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا سمجھنا ان چیزوں کے علم پر موقوف ہے ،اسی لئے سلف صالحین صحابہ و تابعین نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

اب معاملہ صرف تاریخی روایات کا یا موجودہ تورات و انجیل کا رہ گیا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ موجودہ تورات و انجیل کو بھی مسلسل تحریفات نے آسمانی کتاب کی حیثیت میں نہیں چھوڑا ان کا مقام بھی اب زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ ہی کا ہوسکتا ہے اور زمانہ قدیم کی تاریخ روایات زیادہ تر اسرائیلی قصوں کہانیوں سے ہی پُر ہیں جن کی نہ کوئی سند ہے نہ وہ کسی زمانے کے عقلاء وحکماء کے نزدیک قابل اعتماد پائی گئی ہیں حضرات مفسرین نے اس معاملہ میں جو کچھ لکھا وہ سب انہی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے اسی لئے ان میں اختلافات بےشمار ہیں۔۔۔۔۔ ۔ان کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور خود قرآن کی نصوص اس پر شاہد ہیں ۔"

(سورہ کہف،ج:5،ص:628،ط:مکتبہ معارف القرآن )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں