ایک شخص نے کسی طلاق شدہ عورت سے شادی کی، پھر جب دونوں میں خلوت ہوئی تو جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے مانع حمل (کنڈوم )کا استعمال کیا ،پھر اس کے بعد دونوں میں کوئی نا اتفاقی ہوئی ،پھر اگلے دن ہی شوہر نے اس کو تین طلاق دے دیں ،اب وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے جب کہ اس عورت کے دوسرے شوہر نے ایک ہی بار مجامعت کی ہے ،وہ بھی ما نع حمل (کنڈوم )کے ساتھ، تو پہلے شوہر کے پاس جانے کی کیا صورتیں ہیں؟ رہنمائی فرمائیے۔
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون کو اس کے پہلے شوہر نے تین طلاقیں دی تھیں، اور پھر دوسرے شوہر نے اس مطلقہ سے پہلے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد نکاح کیا تھا اور اس کے بعد جو شوہر نے مجامعت کی اس میں دخول بھی ہوا تھا(چاہے کنڈوم کے ساتھ ہوا ہو) اور اس کے بعد اس دوسرے شوہر نے طلاق دے دی، تو اس طلاق کی عدت گزارنے کے بعد یہ عورت اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
إنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح، وهو أن تنكح زوجا غيره لقوله تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]...منها أن يكون النكاح الثاني صحيحا حتى لو تزوجت رجلا نكاحا فاسدا ودخل بها لا تحل للأول؛ لأن النكاح الفاسد ليس بنكاح حقيقة...منها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء...المراد من النكاح: الجماع؛ لأن النكاح في اللغة هو الضم حقيقة، وحقيقة الضم في الجماع، وإنما العقد سبب داع إليه فكان حقيقة للجماع مجازا للعقد مع ما أنا لو حملناه على العقد لكان تكرارا؛ لأن معنى العقد يفيده ذكر الزوج فكان الحمل على الجماع أولى...أما الحديث فما روينا عن عائشة رضي الله عنها أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم و قالت: إن رفاعة طلقني، وبت طلاقي؛ فتزوجني عبد الرحمن بن الزبير ولم يكن معه إلا مثل هدبة الثوب؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي من عسيلته، ويذوق من عسيلتك...أما الإنزال فليس بشرط للإحلال؛ لأن الله تعالى جعل الجماع غاية الحرمة، والجماع في الفرج هو التقاء الختانين فإذا وجد فقد انتهت الحرمة."
(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 189، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."
(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیماتحل به المطلقة و ما یتصل به، ج: 1، ص: 473، ط: رشیدیہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100250
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن