بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ظہر کے افضل وقت کی تاخیر کا معیار


سوال

ظہر   کی  نماز   کے مستحب  وقت  میں  تاخیر افضل ہے، لیکن  اس تاخیر  کا  معیار  کیا ہوگا  کہ کتنی تاخیر  بہتر ہوگی ؟

جواب

واضح ہو کہ عبادات میں اصل یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد ادا کیا جائے، البتہ اگر کسی عمل پر شریعتِ مطہرہ نے کوئی زائد فضیلت رکھی ہو تو اس کے پیشِ نظر اس حد تک تاخیر کی جاسکتی ہے کہ وہ عمل مکروہ نہ ہوجائے۔

صورتِ  مسئولہ میں گرمی کے موسم میں ظہر  کی نماز  میں تاخیر اس لیے افضل ہے کہ ظہر کا اول وقت عمومًا گرمی کا ہوتا ہے اوراگر اسے اول وقت میں باجماعت  ادا کرلیا جائے تو ممکن ہے کہ کم لوگ جماعت میں شرکت کریں؛ لہذا تکثیرِ جماعت (جماعت میں زیادہ لوگوں کی شرکت) کے پیشِ نظر ظہر میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ نیز ٹھنڈے علاقوں میں یا سردی کے موسم میں  چوں کہ ظہر کے اول وقت میں ایسی گرمی نہیں ہوتی جو تکثیرِ جماعت کے لیے رکاوٹ بنے؛ لہذا ان مواقع پر تاخیر کرنا افضل نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سے فقہاءِ کرام کے یہاں ظہر کا وقت  چوں کہ مثلِ ثانی (جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دوگنا ہو) سے پہلے تک ہے، لہذا اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ مثلِ ثانی ہوجائے۔

حاصل یہ ہے کہ ظہر کی جماعت کے ساتھ نماز کے افضل وقت کی ادائیگی کا معیار 'تکثیرِ جماعت' ہے؛  لہذا سردیوں میں اصل کے مطابق جلد پڑھنا افضل ہے، جب کہ گرمی کے موسم میں اتنی تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے کہ موسم ٹھنڈا ہوجائے اور  لوگ جماعت میں زیادہ شامل ہوں، تاہم اتنی تاخیر نہ ہو کہ اختلافی وقت  (مثلِ ثانی)  داخل ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 367):

"لكن اعترضهم هناك صاحب غاية البيان بأن أئمتنا صرحوا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة و أن ما ذكروه في التيمم مفهوم و الصريح مقدم عليه و قدمنا الكلام عليه ثم فراجعه."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 249):

"و تعقبهم الأتقاني في غاية البيان بأنه سهو منهم بتصريح أئمتنا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة.

و أجاب في السراج بأن تصريحهم محمول على ما إذا تضمن التأخير فضيلة وإلا لم يكن له فائدة، فلا يكون مستحبا، وانتصر في البحر للأتقاني بما فيه نظر كما أوضحناه فيما علقناه عليه. والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة وتأخير العصر لاتساع وقت النوافل وتأخير العشاء لما فيه من قطع السمر المنهي عنه، وكل هذه العلل مفقودة في حق المسافر؛ لأنه في الغالب يصلي منفردا، ولا يتنفل بعد العصر، ويباح له السمر بعد العشاء كما سيأتي، فكان التعجيل في حقه أفضل وقولهم كتكثير الجماعة مثال للفضيلة لا حصر فيها."

الفتاوى الهندية (1 / 52):

"و يستحب تأخير الظهر في الصيف و تعجيله في الشتاء."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں