سوال
میرا سوال ایک نئی لانچ ہونے والی امیریکن کمپنی کے بارے میں ہے جو کہ زینوس کے نام سے مشہور ہیں ،یہ کمپنی فیزیکل بازار میں تو تیس سال سے کام کرتی ہے؛ لیکن آٹھ ماہ سےآن لائن بازار بھی جوائن کیا ہے اور آن لائن کام شروع کیا ہے،اس میں کام کرنے کا طریقہ کار مندرجہ ذیل طریقوں سے ہوتا ہے۔
- .سب سے پہلے تو اس میں انویسٹمنٹ ہوتی ہے یعنی آپ اس میں پیسے ڈالیں گے اور وہ ڈالر ہوگا اور کمپنی آپ کے ساتھ چار مہینے تک قرار داد کرتی ہے کہ ہم چار مہینے تک آپ کے پیسوں سے کام کریں گے، قرار داد پورا ہونے کے بعد اگر دوبارہ قرارداد کریں یا اپنے پیسے نکالیں یہ آپ کی مرضی ہے،لیکن قرار داد پورا ہونے سے پہلے بھی آپ اگر چاہیں تو اپنے پیسے نکال سکتے ہیں، لیکن پھر آپ سے تیس فیصد کٹوتی ہوگی، کمپنی ہمیں بتاتی ہے کہ ہم آپ کے پیسوں سے بازار میں چھ قسم کے کاروبار کرتے ہیں:کپڑوں کی خرید وفروخت،دوائیوں کی خرید وفروخت،گاڑیوں کی خرید وفروخت،معدنیات میں کام،گاڑیوں کے ٹرانسپلانٹ،رئیل اسٹیٹ ۔تو آپ کے پیسوں سے جتنا منافع آتا ہے اس سے پچاس فیصد کمپنی اور پچاس فیصد آپ لیں گے، یعنی اس کے منافع متعین نہیں ہیں، بلکہ فیصد کے اعتبار سے ہے اور اسی طرح اگر کمپنی کا کاروبار میں نقصان ہو جائے تو آپ کو بھی نقصان بھرنا ہوگا، یعنی کمپنی کے ساتھ آپ نقصان میں شریک ہوں گے ۔اور اسی طرح کمپنی منافع روزانہ دیتی ہے، لیکن یہ کہتے ہیں کہ یہ منافع آپ کو سسٹم دیتا ہے، کیوں کہ وہ منافع آپ نکال نہیں سکتے، بلکہ اس میں ایک آ پشن جوکہ پینڈنگ بیلنس کے نام سے ہے (اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پیسے ابھی تک کام پر بند ہے) اس میں جمع ہوتا ہے اور پھر ہفتے یا دو ہفتوں میں ایک بار اس آپ کی انویسٹمنٹ کے مطابق یعنی اگر انویسٹمنٹ زیادہ ہو تو زیادہ اگر کم ہو تو کم ڈالر اویلیبل بیلنس والے آپشن میں منتقل ہو جاتے ہیں، اس سے پھر آپ ڈالر وِدڈرا کرسکتے ہیں اور چار مہینے قرار داد پورا ہونے کے بعد وہ پیسے بھی نکال سکتے ہیں جو کہ پینڈنگ والے آ پشن میں تھے اور اپنے اصل پیسے یعنی راس المال وہ سب اویلیبل بیلنس والے آپشن میں منتقل ہو جاتے ہے اور پھر سب آپ ودڈرا کرسکتے ہیں ۔
- دوسرا طریقہ اس میں ریفرل لنک کا ہے یعنی اس میں آپ کا ایک لنک ہوگا، اگر آپ وہ لنک اور لوگوں کو دے دیں گے اور وہ اس پر اکاؤنٹ بناتا ہے اور پھر وہ اس میں انویسٹمنٹ کرتا ہے تو اس کی بھی اپ کو 4 فیصد منافع ملے گا ۔
- تیسرا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر آپ یوٹیوب میں کمپنی کے اشتہارات کرتے ہیں تو اس کا بھی منافع ملے گا ۔
جواب
صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی میں انوسمنٹ کرنا درج ذیل وجوہات کی بنا پر شرعاً جائز نہیں :
- مذکورہ کمپنی میں اگر معاہدہ کا وقت پورا ہونے سے پہلے کسٹمر اپنی رقم کمپنی سے نکالنا چاہیں تو کمپنی اس پر تیس فیصد کٹوتی کرتی ہے جو کہ شرعاً جائز نہیں ۔
- مذکورہ کمپنی کا طریقہ کار ملٹی لیول مارکیٹینگ کا ہے۔یعنی اس میں کسٹمرکو اپنے لنک کے ساتھ لوگوں کو منسلک کروانے پرکمپنی کی طرف سے کمیشن ملتا ہے۔ اور جس کو منسلک کروایا ہے جب وہ آگے کسی کو منسلک کرواتا ہے تو اس کے ساتھ پہلے والے ممبر کو بھی ریوارڈ (کمیشن) ملتا ہے۔ اس میں پہلا کمیشن تو ٹھیک ہے، لیکن پھر یہ کمیشن در کمیشن شروع ہوجاتا ہے جو کہ محنت کے بغیر، عمل کے بغیر اجرت کی صورت اختیار کرجاتا ہے، اور ملٹی لیول مارکیٹینگ کا طریقہ شرعاً جائز نہیں۔
- یوٹیوب پر کمپنی کے اشتہارات چلانا جوکہ عام طور پر جان دار اشیاء کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں، جس کا دیکھنا اور اس پر منافع لینا شرعاً جائز نہیں ۔
حدیث میں ہے :
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أيُّ الكسب أطيب؟قال: "عمل الرجل بيده، وكلّ بيعٍ مبرورٍ".
(شعب الایمان،باب التوکل باللہ عزوجل ،ج:2،ص:434،مکتبۃ الرشد)
الکاشف عن حقائق السنن میں ہے :
"قوله: (مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".
(کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،ج:7،ص:2112،مکتبۃ نزار)
البحر الرائق میں ہے :
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."
(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)
فتاوی شامی میں ہے :
"مطلب في التعزير بأخذ المال
(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ".
(کتاب الحدود ،باب التعزیر،ج:4،ص:61،سعید)
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء :
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن