بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ائمہ اربعہ کو نہ ماننے والے کا حکم


سوال

بعض لوگ ہمارے چاروں ائمہ میں سے کسی کو نہیں مانتے ،اس بارے میں کیا حکم ہے ؟اور ان کی تقلید کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر مکمل طور پر بسہولت عمل کرنے کے لیے چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید  و پیروی کرنا شرعاً ضروری ہے؛ اس لیے کہ تکوینی طور پر اللہ رب العزت نے دین فہمی و نصوصِ شرعیہ سے استنباطِ مسائل کا جو ملکہ ان حضرات کو عطا کیا تھا وہ ان کے بعد  والوں میں سے کسی کو حاصل نہ ہوا، اور ان حضرات کے مسالک کو جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ کسی اور  مجتہد عالم کو حاصل نہ ہوئی،  یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ فقہ کے مقلدین  میں بڑے بڑے محدثین کے نام ملتے ہیں جو احادیث سے مسائل استنباط کرنے میں اور ان پر  عمل کرنے میں ان چار ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے تھے اور  ان حضرات فقہاءِ کرام کے مقلدین  ساری دنیا میں موجود ہیں اور تعلیمِ دین اور دین پر صحیح طریقہ پر عمل کرنے میں مصروف ہیں؛  پس ان ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کرنا اور اپنے آپ کو  قرآن و حدیث سے آزادانہ طور  پر از خود مسائل سمجھنے  اور ان سے مسائل استنباط  کرنے کے قابل سمجھنا،  ناسمجھی، خودپسندی اور کم علمی کی دلیل ہے،  یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد  عموماً بعض روایات کو سامنے  رکھ  کر  بقیہ نصوصِ شرعیہ کو پس پشت ڈال کر ایسے ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جو اجماعِ صحابہ و اجماعِ امت کے صریح خلاف ہوتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید امر لازمی ہے،  اگر یہ آزادی دی جائے کہ جس مسئلہ میں چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں ، اور جس میں چاہیں کسی دوسرے کا قول لے لیں، تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا تھا کہ لوگ اتباعِ شریعت کا نام لے کر اتباعِ ہویٰ میں مبتلا ہوجائیں کہ جس امام کے قول میں اپنی غرضِ نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا، بلکہ اپنی اغراض و ہویٰ کا اتباع ہوگا، جو باجماع امت حرام ہے۔

اور جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی کی بھی تقلید نہیں کرتے ایسے افراد  ’’سوادِ اعظم‘‘ سے خارج شمار ہوں گے۔ جیساکہ "العقد الجید" میں ہے:

"ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعاً للسواد الاعظم، و الخروج عنها خروجاً عن السواد الأعظم". (ص: ٣٨)

"خلاصة التحقيق في بيان حكم التقليد و التلفيق" میں ہے:

"أما تقليد مذهب من مذاهبهم (أي من مذاهب المتقدمين من الصحابة و التابعين) الآن غير المذاهب الأربعة فلايجوز، لا لنقصان في مذهبهم و رجحان المذاهب الأربعة عليهم، لأن فيهم الخلفاء المفضلين علي جميع الأمة بل لعدم تدوين مذاهبهم و عدم معرفتنا الآن بشروطها و قيودها و عدم وصول ذلك إلينا بطريق التواتر، حتي لو وصل إلينا شيء من ذلك كذلك جاز لنا تقليده لكنه لم يصل كذلك". (ص: ٣)
تقلید کیوں ضروری ہے؟ اور عدمِ تقلید کی صورت میں کیا نقصان ہے؟ اور ائمہ اربعہ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کیوں لازم ہے وغیرہ وغیرہ ان تمام موضوعات کی تفصیل کے لیے دیکھیے: اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ (افادات حضرت تھانوی رحمہ اللہ ترتیب: مولانا زید مظاہری صاحب) اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول، ص/ ۲۷تا ۳۲ از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ ) فقط واللہ تعالی اعلم  


فتوی نمبر : 144103200454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں