بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام سے نکلنے کے لیے چوتھائی سر کے بالوں کے قصر پر اکتفا کرنا سنت کے خلاف ہے یا نہیں؟


سوال

کیا قصر  کی صورت میں اس حدیث کی مخالفت نہیں جس میں بعض جگہوں سے بال کاٹنا اور بعض جگہ چھوڑنے کی ممانعت ہے؟

جواب

احرام سے نکلنے کے  لیے شرط  یہ ہے کہ حج یا عمرہ  کے تمام افعال مکمل کرنے کے بعد سر کے بالوں کو حلق کروایا جائے یا (قینچی، مشین وغیرہ سے) بال کٹوائے جائیں،  سب سے افضل  اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق یہ ہے کہ  مکمل سر  پر استرا  پھروایا  جائے ،  اگر استرا نہ پھروائے تو بال کاٹنے کی بھی اجازت ہے، لیکن  بال کاٹنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پورے سر کے بال کاٹے، نیز  قصر (بال کٹوانے) کی اجازت کے لیے ضروری ہے کہ کٹنے والے بال لمبائی میں کم از کم انگلی کے ایک پورے کے برابر یا اس سے زیادہ ہوں،  اگر سر کے بال پہلے ہی اتنے چھوٹے ہوں کہ کٹنے والے بال ایک پور  کی مقدار نہ ہوں تو پھر حلق کروانا ضروری ہے۔

البتہ اگر  کوئی شخص کسی عذر  کی  وجہ سے یا ویسے ہی چوتھائی سر کے بال حلق کروائے  یا چوتھائی سر کے بالوں کو کم از کم ایک پورے کے بقدر کٹوائے  تو بھی  یہ شخص احرام سے نکل جائے گا، لیکن  یہ بات واضح ہے کہ  حلق یا تقصیر میں  سنت یہ ہے کہ حلق و تقصیر  یا تو سر کے مکمل بالوں  کی  کی جائے  یا مکمل چھوڑ دیا جائے؛  اس لیے فقہاء  نے احرام سے نکلنے کے لیے حلق  و تقصیر میں چوتھائی سر کے بالوں پر اکتفا  کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔  لہٰذا محرم (احرام والے) کو  چاہیے کہ قصر  کی صورت میں مکمل سر کے  بال کٹوائے؛  تاکہ سنت کی خلاف ورزی لازم نہ آئے۔

فقہاءِ کرام کے اس مسئلہ ذکر کرنے کا مقصد دو باتیں ہیں:

(1) اگر کسی عذر کی وجہ سے کوئی شخص پورے سر کے بال نہ منڈوا سکے یا نہ کٹواسکے، مثلاً سر پر زخم یا بہت زیادہ دانے ہوں، یا اس کے سر پر بال ہی بعض حصے میں ہوں،  اور وہ صرف ان ہی کو کاٹ دے تو کیا وہ احرام سے حلال ہوگا یا نہیں؟ اگرچہ وہ شخص جس کے سر پر بالکل بال نہ ہوں اس کے لیے بھی سنت یہ ہے کہ وہ پورے سر پر استرا پھیرے۔

(2) کسی نے نادانی میں ایسے کرلیا تو کیا اس پر دم لازم آئے گا یا نہیں؟

ان دو پہلوؤں کے پیشِ نظر ضروری تھا کہ بالوں کی لمبائی اور سر کے حصے کے اعتبار سے بالوں کی کم ازکم وہ مقدار  بیان کردی جائے جس کے حلق یا قصر سے محرم حلال ہوجائے اور دم سے بچ جائے، چناں چہ فقہاءِ کرام نے وہ مقدار بتائی ہے کہ کم از کم ایک پور کے برابر ، چوتھائی سر کے بال کاٹے جائیں،  نہ کہ اس کی ترغیب دی جارہی ہے کہ اتنے ہی بال کاٹے جائیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 515):
"(ثم قصر) بأن يأخذ من كل شعره قدر الأنملة وجوباً وتقصير الكل مندوب والربع واجب ۔۔۔۔ (وحلقه) لكل (أفضل).

(قوله: بأن يأخذ إلخ) قال في البحر: والمراد بالتقصير أن يأخذ الرجل والمرأة من رءوس شعر ربع الرأس مقدار الأنملة كذا ذكره الزيلعي، ومراده أن يأخذ من كل شعرة مقدار الأنملة كما صرح به في المحيط. وفي البدائع قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة حتى يستوفي قدر الأنملة من كل شعرة برأسه لأن أطراف الشعر غير متساوية عادة. قال الحلبي في مناسكه وهو حسن اهـ وفي الشرنبلالية: يظهر لي أن المراد بكل شعرة أي من شعر الربع على وجه اللزوم ومن الكل على سبيل الأولوية فلا مخالفة في الأجزاء لأن الربع كالكل كما في الحلق اهـ فقول الشارح من كل شعرة أي من الربع لا من الكل وإلا ناقض ما بعده، وقوله: وجوبا قيد لقدر الأنملة فلا يتكرر مع قوله: والربع واجب والأنملة بفتح الهمزة والميم وضم الميم لغة مشهورة، ومن خطأ راويها فقد أخطأ واحدة الأنامل بحر. وفي تهذيب اللغات للنووي الأنامل أطراف الأصابع. وقال أبو عمر الشيباني والسجستاني والجري: لكل أصبع ثلاث أنملات ۔۔۔۔۔ (قوله: وحلقه أفضل) أي هو مسنون وهذا في حق الرجل، ويكره لمرأة لأنه مثلة في حقها كحلق الرجل لحيته وأشار إلى أنه لو اقتصر على حلق الربع جاز. كما في التقصير، لكن مع الكراهة لتركه السنة فإن السنة حلق جميع الرأس أو تقصير جميعه كما في شرح اللباب والقهستاني". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں