بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے کا حکم


سوال

کیا ان غیر مسلموں کے ساتھ کاروبار (جو مسلمان امت کے خلاف سازش اور اس سے بڑھ کر قتال کرتے ہوں مثلاً اسرائیل ) جائز ہے؟اور اس ضمن میں حکم کیا ہے جو ایک اسرائیلی کمپنی ہے۔

جواب

بصورت مسئولہ اسلام نے عام حالات میں اگرچہ غیر مسلموں کے ساتھ کاروباری لین دین معاملات کی اجازت دی ہے اور خود آپﷺ نے بھی غیرمسلموں(اہل یہود) سے کاروبار کیاہے، تاہم ایسے غیرمسلم جو مسلمانوں سے کمائے ہوئے پیسوں سے مسلمانوں ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں  یا مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے ان کی  بیخ کنی کا اردہ کرکے سازش کرتے  ہیں،اور اپنی  اقتصاد کو مضبوط کرکے مسلمانوں کےخلاف اپنی شان شوکت کا اظہار  کرتے ہیں، تو  ازروئے شرع ایسے غیرمسلموں سے کاروبار کرنایا کوئی معاملہ کرنا یا ان کی کمپنی سےکسی بھی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے،تاکہ اس سازش کے ذریعے مسلمانوں کی  بیخ کنی میں ان کے معاون نہ بن جائے۔

صحيح مسلم   میں ہے:

"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع."

(باب المساقاة والمزارعة، ج:3، ص:1186، ط: دارإحياء التراث العربى)

المبسوط للسرخسي میں ہے؛

"ولا يمنع التجار من حمل التجارات إليهم إلا الكراع والسلاح والحديد لأنهم أهل حرب وإن كانوا موادعين ألا ترى أنهم بعد مضي المدة يعودون حربا للمسلمين ولا يمنع التجار من دخول دار الحرب بالتجارات ما خلا الكراع والسلاح فإنهم يتقوون بذلك على قتال المسلمين فيمنعون من حمله إليهم وكذلك الحديد فإنه أصل السلاح قال الله تعالى {وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ} [الحديد: 25]."

(باب صلح الملوك والمودعة، ج:10، ص:151، ط:دارالفكر للنشروالتوزيع)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144111201467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں