میرے مسئلے کی مختلف صورتیں ہیں، جو ذیل میں تفصیل سے لکھی جاتی ہیں، امید ہے کہ ہر صورت کا حکم علیحدہ طور پر مفصل ومدلل بیان کرکے ممنون فرمائیں گے۔
1۔ اگر کوئی مہتمم صاحب یا مدرس (استاذ صاحب) کسی مسجد میں امام ہو، بعض نمازیں خود جاکر پڑھاتا ہو اور بعض نمازو ں کے لیے مستقل طور پر اپنا شاگرد یعنی طالب علم بھیجتا ہو تو ایسی امامت کا کیا حکم ہے؟
2۔ اگر مشکل اور دشوار وقت مثلادھوپ، بارش وغیرہ میں طالب علم کو بھیجتا ہو اور راحت والے اوقات میں خود جاکر پڑھاتا ہو؟
3۔ اور اگر مذکورہ بالا صورتوں میں طالب علم کو مستقل طور پر بعض نمازیں پڑھانےکا کچھ معاوضہ بھی دیتا ہو، لیکن وہ معاوضہ تھوڑا یعنی قلیل ہو بایں طور کہ ان کو جو ماہانہ وظیفہ/تنخواہ مل رہا ہے، اس کو اگر نمازوں پر تقسیم کرکےحساب لگایا جائے تو طالب علم کے ذمہ لگائی گئی نمازوں کا عوض زیادہ بنتا ہو، جب کہ طالب علم کو کم دیاجاتا ہو؟
4۔ اور اگر کل تنخواہ ساری نمازوں پر تقسیم کرکے طالب علم کو اپنی نمازوں کا پورا معاوضہ دیاجاتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
5۔ اور اگر کوئی مہتمم صاحب یا مدرس صاحب تین مساجد میں بیک وقت امام ہو اور طریقہ کار یہ اپنایاہو کہ مثلا مسجد نمبر1 میں فجر کی نماز خود پڑھاتا ہو اور اسی مسجد کی بقیہ نمازیں طالب علم کے ذمے لگائی ہوں، اور ظہر کی نماز مسجد نمبر 2 میں خود پڑھاتا ہواور باقی نمازیں طالب علم کے ذمہ سونپ دی ہوں، اسی طرح عصر کی نماز مسجد نمبر 3 میں خود پڑھاتا ہو اور باقی نمازوں کے لیے طالب علم بھیجتا ہو، ایسی امامت کا کیا حکم ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ اگر امام اور مسجد کی انتظامیہ کے درمیان ایسا معاہدہ طے پائے کہ دن میں بعض نمازیں امام صاحب پڑھائیں گے اور بعض نمازوں میں اپنے کسی نائب (شاگرد وغیرہ) کو بھیجیں گے، تو ایسا معاہدہ کرنا درست ہے، اور ایسے امام کی امامت بھی درست ہے، اور اگر معاہدے میں یہ طے ہو کہ مسجد کی انتظامیہ اس نائب کو بھی تنخواہ دے گی، تو مسجد فنڈ سے امام صاحب کے ساتھ وہ نائب بھی تنخواہ کا حق دار ہوگا، تاہم اگر مسجد انتظامیہ سے اس قسم کا معاہدہ طے نہ ہو تو پھر اس نائب کا معاملہ اصل امام کے ساتھ ہوگا، اگر امام صاحب نے نائب کو مقرر کرتے ہوئے کچھ اجرت طے کی ہو، تو نائب کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد مقرر کردہ اجرت امام صاحب سے طلب کرنے کا اختیار ہوگا، اور اگر امام صاحب نے کوئی اجرت طے نہ کی ہو، اور نائب بھی ایسا ہو کہ بغیر اجرت کے کام کرتا ہو، تو پھر اس کا امام کی طرف سے نیابت کرانا تبرع ہوگا اور اسے اجرت کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:
1- مذکورہ امام صاحب کی امامت درست ہے۔
2- شاگرد اگر اس پر راضی ہو، تو جائز ہے، تاہم اخلاقاً ایسا کرنا درست نہیں۔
3- امام اگر اپنا نائب مقرر کرے تو اس کی تفصیل اوپر لکھی جاچکی ہے، بہرحال اگر اجرت کا معاملہ امام اور نائب کے درمیان ہو تو جس طرح مسجد کمیٹی اور اہلِ محلہ پر لازم ہے کہ وہ اصل امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کی ضروریات اور معاشرے کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی تنخواہ مقرر کریں جس سے امام صاحب کی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوسکیں، اسی طرح امام صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ اگر اپنا کوئی نائب مقرر کرتے ہیں تو اُسے اجرت دینے میں نائب کی ضروریات وحالات کو مدنظر رکھ کر مناسب اجرت طے کریں۔
4- درست ہے۔
5- اگر مساجد کی انتظامیہ اس طور پر امامت کرانے پر راضی ہوں، تو یہ بھی جائز ہوگا۔
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى، عن شعبة، عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وعن حسين المعلم قال: حدثنا قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه»."
(كتاب الإيمان، باب: من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، ١/ ١٢، ط: دار طوق النجاة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم)."
(كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، ٦/ ٦٩، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
"وقد تابع الناظم في هذا ما فهمه الطرسوسي من كلام الخصاف المار آنفا قال: فإنه لم يجعل له الاستنابة مع قيام الأعذار المذكورة فإنها لو جازت لقال، ويجعل له من يقوم مقامه إلى زوال عذره، واعترضه في البحر بأن الخصاف صرح بأن للقيم أن يوكل وكيلا يقوم مقامه، وله أن يجعل له من المعلوم شيئا وكذا في الإسعاف وهذا كالتصريح بجواز الاستنابة، لأن النائب وكيل بالأجرة وفي القنية استخلف الإمام خليفة في المسجد ليؤم فيه زمان غيبته لا يستحق الخليفة من أوقاف الإمامة شيئا إن كان الإمام أم أكثر السنة. اهـ. وفي الخلاصة أن الإمام يجوز استخلافه بلا إذن بخلاف القاضي، وعلى هذا لا تكون وظيفته شاغرة، وتصح النيابة. قال في البحر: وحاصل ما في القنية: أن النائب لا يستحق شيئا من الوقف لأن الاستحقاق بالتقرير، ولم يوجد ويستحق الأصيل الكل إن عمل أكثر السنة وسكت عما يعينه الأصيل للنائب كل شهر في مقابلة عمله والظاهر أنه يستحق لأنها إجارة وقد وفى العمل بناء على قول المتأخرين المفتى به ... وعلى القول بعدم جواز الاستنابة إذا لم يعمل الأصيل وعمل النائب كانت الوظيفة شاغرة، ولا يجوز للناظر الصرف إلى واحد منها ويجوز للقاضي عزله وعمل الناس بالقاهرة على الجواز وعدم اعتبارها شاغرة مع وجود النيابة ثم قال: فالذي تحرر جواز الاستنابة في الوظائف اهـ ويؤيده ما مر في الجمعة من ترجيح جواز استنابة الخطيب قال الخير الرملي في حاشيته ما تقدم عن الخلاصة ذكره في كتاب القضاء من الكنز والهداية وكثير من المتون والشروح والفتاوى، ويجب تقييد جواز الاستنابة بوظيفة تقبل الإنابة كالتدريس، بخلاف التعليم، وحيث تحرر الجواز فلا فرق بين أن يكون المستناب مساويا له في الفضيلة، أو فوقه أو دونه كما هو ظاهر ... اهـ. وقال في الخيرية: بعد نقل حاصل ما في البحر والمسألة وضع فيها رسائل، ويجب العمل بما عليه الناس وخصوصا مع العذر وعلى ذلك جميع المعلوم للمستنيب وليس للنائب إلا الأجرة التي استأجره بها. اهـ"
(كتاب الوقف، مطلب مهم في الاستنابة في الوظائف، ٤/ ٤٢٠، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
"وأما كون المعلوم للنائب فينافيه ما مر عن البحر من أن الاستحقاق بالتقرير، ولا سيما إذا باشر الأصيل أكثر السنة، فصريح ما مر عن القنية أنه لا يستحق النائب شيئا أي إلا إذا شرط له الأصيل أجرة أما إذا كان المباشر هو النائب وحده وشرط الواقف المعلوم لمباشر الإمامة أو التدريس مثلا فلا خفاء في اختصاصه بالمعلوم بتمامه، وكتبت في تنقيح الحامدية عن المحقق الشيخ عبد الرحمن أفندي العمادي أنه سئل فيما إذا كان لمؤذني جامع مرتبات في أوقات شرطها واقفوها لهم في مقابلة أدعية يباشرونها للواقفين المذكورين وجعل جماعة من المؤذنين لهم نوابا عنهم في ذلك، فهل يستحق النواب المباشرون للأذان والأدعية والمزبورة المرتبات المرموقة دون الجماعة المذكورين الجواب."
(كتاب الوقف، مطلب فيما إذا شرط المعلوم لمباشر الإمامة لا يستحق المستنيب، ٤/ ٤٢١، ط: سعيد)
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"لو استأجر أهل قرية معلما، أو إماما أو مؤذنا وأوفى خدمته يأخذ أجرته من أهل تلك القرية ... وليس قوله (أهل قرية) قولا أريد به الاحتراز؛ لأنه لو قاول إمام جامع آخر على أن يصلي بالناس مدة في ذلك الجامع نيابة عنه بكذا قرشا مشاهرة وقام ذلك الرجل بالصلاة بالناس مدة فله الأجر المسمى لتلك المدة."
(الكتاب الثاني الإجارة، الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه، الفصل الرابع في بيان إجارة الآدمي، ١/ ٦٥٥، المادة: ٥٧٠، ط: دارالجيل)
وفيه أيضاً:
"لو خدم أحد آخر بناء على طلبه من دون مقاولة على أجرة فله أجر المثل إن كان ممن يخدم بالأجرة وإلا فلا، أي أنه لو خدم أحد آخر بطلبه من دون أن يتقاولا على أجرة أو يعقدا إجارة لمدة، فلذلك الشخص أجرته اليومية إن كان ممن يخدم بالأجرة، وكانت أجرته معلومة، وإذا لم تكن معلومة فله أجر المثل بالغة ما بلغت على الرجل الذي استخدمه، ويأخذها من تركته إذا توفي ... وإذا لم يكن ممن يخدم بالأجرة عد متبرعا في عمله وليس له أخذ شيء ما، ولا يشترط في من يخدم بالأجرة أن يكون قبل ذلك عمل عملا بالأجرة. وعليه لو خدم زيد الذي لم يسبق له أن اشتغل بالأجرة أحدا بطلبه من دون مقاولة أجرة، فإن كان ممن يخدم بدون أجرة عادة فليس له أجرة وإلا أخذ."
(الكتاب الثاني الإجارة، الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه، الفصل الرابع في بيان إجارة الآدمي، ١/ ٦٤٨، المادة: ٥٦٣، ط: دارالجيل)
کفایت المفتی میں ہے:
"(سوال) زید مدرسہ اسلامیہ میں صدر مدرس ہے، مدرسہ کی آمدنی چندہ وغیرہ سے مبلغ چالیس روپے ماہوار تنخواہ پاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مسلمان وکیل کو عربی پڑھا کر ۔۔۔ اور ایک مسجد میں جو مدرسہ مذکور سے کچھ فاصلہ پر ہے وہاں امامت کرتا ہے اور مبلغ دس روپے مزید حاصل کرتا ہے۔ آغازِ تقررِ امامت میں زید مدرسہ کی ملازمت کی وجہ سے ظہر وعصر کی نمازیں اپنے لڑکے سے پڑھوایا کرتا تھا۔ اب کچھ دنوں سے لڑکا چلا گیا ہے اور زید سے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ آئندہ میں ان دو نمازوں کی پابندی نہیں کرسکتا ہوں۔ اب مغرب، عشاء، فجر تین وقت کی نماز تو وہ پابندی سےپڑھا رہا ہے عصر کی گاہے گاہے، اور ظہر میں شاذ ونادر ہی کبھی آتا ہے ۔۔۔ پس موجودگی حالاتِ مذکورہ متولی مسجد کو آمدنی کرایہ جائداد متعلقہ مسجد سے زید کو مبلغ دس روپے ماہوار دینا اور امام کو لینا جائز ہے یا نہیں؟
(جواب٤٨) امامت کی تنخواہ لینا جائز ہے اور امام جس قدر کام کرسکتا ہے اور اس کا اقرار کرتا ہے اگر متولی اس قدر کام کے عوض میں راضی ہوکر اسے کوئی مقدار تنخواہ کی دینا منظور کرلے تو اس میں کوئی وجہ عدم جواز کی نہیں۔ ہاں اگر متولی کو امام موصوف کی طرح لیاقت رکھنے والا شخص ایسا مل جائے جو پانچوں وقت کی نماز اتنے معاوضہ میں پڑھا دیا کرے تو متولی کو جائز ہوگا کہ وہ سابق امام کے بجائے اس کو مقرر کرے۔"
(کتاب الوقف، فصل نہم، ٧/ ٦٨، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)
اسی طرح ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
"باقی رہا امام کا معاملہ تو اگر اہل ِ مسجد امام سے کسی شرعی ضرورت کے ماتحت نماز نہ پڑھوائیں تو مضائقہ نہیں اور امام جب تک امام ہے اس کو مسجد فنڈ سے تنخواہ دی جاسکتی ہے، جب کہ اس کی نیابت میں دوسرا شخص اہلِ مسجد کی رضامندی سے اس کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ فقط۔"
(کتاب الصلاۃ، باب مایتعلق بالنیابۃ عن الامام، ٤/ ٢٧٣، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144501100396
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن