بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر امام و مقتدی کے رخ نماز میں مختلف ہوں تو مقتدی کی نماز کا حکم


سوال

اگر امام سیدھا کھڑا ہو، اور مقتدی امام کے پیچھے ٹیڑھا کھڑا ہو اور مقتدی کا موقف یہ ہو کہ یہ امام صحیح سمت کی طرف رخ کر کے نہیں کھڑا ہوا تو کیا اس امام کے پیچھے اس مقتدی کی نماز ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام و مقتدی اگر کسی ایسی جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں قبلہ متعین اور معروف تھا اور امام ومقتدی کا رخ قبلہ سے دائیں یا بائیں 45 ڈگری سے کم منحرف تھا تو ایسی صورت میں دونوں کی نماز ادا ہوگئی۔ اور اگرامام کا رخ قبلے سے دائیں یا بائیں 45 ڈگری سے زیادہ منحرف تھا تو قبلہ درست نہ ہونے کی وجہ سے امام کی نماز درست نہ ہوئی، اور چوں کہ مقتدی کی نماز کے درست ہونے کے لیے امام کی نماز کا درست ہونا ضروری ہے ؛ اس لیے ایسے امام کے پیچھے مقتدی کی نماز بھی درست نہ ہو گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 549)

''والصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: ..... وصحة صلاة إمامه''۔

اور اگر کسی ایسی جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں قبلہ معروف اور متعین نہیں تھا، اس کے بعد اس شخص نے ایسے امام کی اقتدا  کی جس نے تحری (علاماتِ قبلہ میں خوب سوچ وبچار ) کر کے نماز شروع کی تھی اور خود مقتدی نے تحری نہیں کی پھر پتا چلا کہ امام کا رخ صحیح نہیں تھا تو اس مقتدی کی نماز درست نہ ہو گی جب کہ امام کی نماز درست ہو گی، اگر اس صورت میں امام کا رخ صحیح تھا تو مقتدی کی نماز بھی درست ہو گی۔

اور اگر امام نے بھی تحری کی اور مقتدی نے بھی تحری کی اور دونوں کی تحری مختلف تھی اور دونوں نے مختلف جہت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور مقتدی کا گمان یہ ہو کہ امام کا رخ درست نہیں تو ایسی صورت میں مقتدی کی نماز درست نہ ہو گی ؛ اس لیے کہ جب مقتدی کے گمان میں امام کی نماز درست نہیں تو مقتدی کی نماز بھی اس امام کے پیچھے درست نہ ہو گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 434)

''(قوله: بمتحر) متعلق بائتم، وقوله: بلا تحر متعلق بمحذوف حال من فاعل ائتم (قوله : لم يجز) أي اقتداؤه إن ظهر أن الإمام مخطئ ؛ لأن الصلاة عند الاشتباه من غير تحر إنما تجوز عند ظهور الإصابة، كما مر''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 551)

'' (قوله : وصحة صلاة إمامه) فلو تبين فسادها فسقاً من الإمام أو نسياناً لمضي مدة المسح أو لوجود الحدث أو غير ذلك لم تصح صلاة المقتدي ؛ لعدم صحة البناء ، وكذا لو كانت صحيحةً في زعم الإمام فاسدةً في زعم المقتدى ؛ لبنائه الفاسد في زعمه فلا يصح، وفيه خلاف، وصحح كل. أما لو فسدت في زعم الإمام وهو لا يعلم به وعلمه المقتدي صحت في قول الأكثر، وهو الأصح ؛ لأن المقتدي يرى جواز صلاة إمامه، والمعتبر في حقه رأي نفسه، رحمتي''۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں