بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کسی کے دو رحم ہوں اور دونوں سے حیض آتا ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک لڑکی کے  دو رحم یعنی یوٹرس  ہیں اور  ہر  ایک  سے  ایک  ہفتہ  کے  فاصلہ  پر  حیض بھی آتاہے،  مثلًا  ایک  رحم  سے 1تا7 تاریخ تک خون آتاہے،  پھر سات دن کے بعد 15تا21 تک دوسرے سے،  اب یہ نماز،  روزہ  کیسے ادا کرے؟

جواب

واضح رہے کہ  ظاہری اسباب ہی کو شرعی احکام کے لیے  مدار بنایاجاتاہے،لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتاً کسی عورت کے دو رحم ہوں اور دونوں سے خون آتاہوتو ظاہری سبب خروجِ  دم یعنی خون کا شرمگاہ سے نکلنے  کا اعتبار ہوگا۔لہذا پہلی بار جس رحم سے خون آیا وہی حیض کا خون کہلائے گا،  اور اسی پر حیض کے احکام جاری ہوں گے،  اور پاکی ناپاکی میں اسی کو مدار بنایاجائے گا۔

پہلی بار خون کے آنے کے بعد ایامِ  حیض کی مدت کے اندر اندر آنے والاخون ناپاکی کا ہوگا، اور اس دوران اس عورت پر حائضہ کے احکام جاری ہوں گے ، اب اس خون کے بند ہوجانے کے بعد اگر پندرہ دن کے اندر اندر دوبارہ خون آتا ہے تو  اسے حیض کا خون نہیں کہاجائے گا،  بلکہ وہ استحاضہ کہلائے گا، اور اس عورت پر مستحاضہ کے احکام جاری ہوں گے ، یعنی ایک بار حیض کا خون بند ہوجانے کے بعد پندرہ دن مکمل ہونے سے پہلے آنے والا خون استحاضہ ہے اور یہ عورت  اس دوران روزہ بھی رکھے اور ہر نماز کے وقت وضو بھی کرے گی اور خاوند کا ملنا بھی درست ہوگا۔اور پندرہ دنوں کے بعد آنےوالا خون حیض کا شمار کیاجائے گا؛ کیوں کہ  دو حیضوں کے درمیان طہر کی کم ازکم مدت پندرہ دن ہے۔

أصول الشاشي - (1 / 359)
 ثم السبب قد يقام مقام العلة  عند تعذر الاطلاع على حقيقة العلة تيسرا للأمر على المكلف ۔
 ويسقط مع اعتبار العلة ويدار الحكم على السبب  ومثاله في الشرعيات النوم الكامل فإنه لما أقيم مقام الحدث سقط اعتبار حقيقة الحدث ويدار الانتقاض على كمال النوم  وكذلك الخلوة الصحيحة لما أقيمت مقام الوطء سقط اعتبار حقيقة الوطء فيدار الحكم على صحة الخلوة في حق كمال المهر ولزوم العدة  وكذلك السفر لما أقيم مقام المشقة في حق الرخصة سقط اعتبار حقيقة المشقة ويدار الحكم على نفس السفر حتى أن السلطان لو طاف في أطراف مملكته يقصد به مقدار السفر كان له الرخصة في الإفطار والقصر "۔

الجوهرة النيرة - (1 / 128)
( قوله : وأقل الطهر خمسة عشر يوما ) يعني الطهر الذي يكون كل واحد من طرفيه حيضا بانفراده ، وقال عطاء ويحيى بن أكثم أقله تسعة عشر يوما لاشتمال الشهر على الحيض والطهر عادة وقد يكون الشهر تسعة وعشرين يوما وأكثر الحيض عشرة أيام فبقي الطهر تسعة عشر قلنا مدة الطهر نظير مدة الإقامة من حيث إنه يعود بها ما كان يسقط من الصلاة والصوم ولهذا قدرنا أقل الحيض بثلاثة أيام اعتبارا بأقل السفر ( قوله : ولا غاية لأكثره ) أي ما دامت طاهرة فإنها تصوم وتصلي ، وإن استغرق ذلك جميع عمرها .

المبسوط للسرخسي ـ مشكول - (4 / 263)
 فأما أقل مدة الطهر خمسة عشر يوما عندنا والشافعي رحمه الله تعالى وقال عطاء : تسعة عشر يوما قال : لأن الشهر يشتمل على الحيض والطهر عادة ، وقد يكون الشهر تسعة وعشرين يوما فإذا كان أكثر الحيض عشرة بقي الطهر تسعة عشر ، ولكنا نقول : أن مدة الطهر نظير مدة الإقامة من حيث إن تعيد ما كان سقط من الصوم والصلاة قد ثبت بالأخبار أن أقل مدة الإقامة خمسة عشر يوما فكذلك أقل مدة الطهر ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں