جو لوگ موجودہ بائبل پر ایمان رکھتے ہیں جو کہ اپنی اصل حالت میں نہیں ہے اور جس میں ملاوٹ و تضاد ہے، کیا اس پر یقین رکھنے والے عیسائی اہلِ کتاب کہلائیں گے؟ کیا اس پے ایمان رکھنے والی عورت سے کسی مسلمان مرد کا نکاح ہو سکتا ہے؟ وہ تو اس کتاب کے مطابق اپنی اور اپنے بچوں کی عبادات چرچ میں ہی کروائے گی!
سابقہ آسمانی کتب اگرچہ تحریف شدہ ہیں، پھر بھی ان پر ایمان رکھنے اور عمل کرنے والا اہلِ کتاب ہی کہلائے گا؛ کیوں کہ قرآنِ پاک کے نزول کے زمانے میں بھی اہلِ کتاب تورات و انجیل میں تحریف کے مرتکب ہوچکے تھے، یہاں تک کہ عقیدۂ توحید میں بھی تحریف کرکے تثلیث کے قائل تھے۔
تاہم اہلِ کتاب عورت سے نکاح اس وقت جائزہے جب وہ واقعتاً آسمانی کتاب کو ماننے والی اور اس کی تابع دارہو، دھریہ نہ ہو۔ فی زمانہ یہود و نصاریٰ کی بڑی تعداد دھریہ ہے، جس کا آسمانی کتاب سے کوئی تعلق نہیں، لہذا جب تک تحقیق سےکسی عورت کا اہلِ کتاب ہونا ثابت نہ ہوجائے مسلمان مرد کا نکاح اس کے ساتھ جائزنہیں۔اورتحقیق سے کسی عورت کا اہلِ کتاب ہونا ثابت ہوجانے کے بعد بھی اگرچہ اس کے ساتھ مسلمان مرد کا نکاح جائزہے، تاہم چندمفاسد کی وجہ سے مکروہ ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ مبارک میں اس پرسخت ناراضی کااظہارفرمایاتھا، اور بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اہلِ کتاب سے نکاح کرنے پر تنبیہ فرماتے ہوئے ان بیویوں کو طلاق دینے کا حکم صادر فرمایا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104201050
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن