ایک بیوہ عورت جس کی چار غیر شادی شدہ بیٹیاں اورایک بیٹاجوکہ مرگی کا مریض ہے، اس عورت کا گزارا 15 ہزار پنشن اور دس ہزار اس کے بیٹے کی تنخواہ سے ہورہا ہے۔ مگر مسئلہ یہ کہ اس کی بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں، لیکن اس کے پاس اسباب نہیں شادی کے لیے۔ اس کی ملکیت میں 70، 80 ہزار روپے بھی ہیں۔ ایک تولہ سونا اس نے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ یہ رقم اس نے ماہانہ خرچہ میں سے بچا بچا کر جمع کی، آیا اس عورت پر زکاۃ ہے کہ نہیں؟
بصورتِ مسئولہ مذکورہ خاتون کے پاس جب ایک تولہ سونے کے ساتھ نقد رقم (بنیادی ضرورت سے زائد) بھی ہے، تو اگر اس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے یا اس سے زیادہ بنتی ہے، تو مذکورہ خاتون پر سالانہ ڈھائی فیصد زکات اداکرنا لازم ہے، نیز زکات ادا کرنےکا طریقہ یہ ہے کہ مجموعی قیمت کو چالیس سے تقسیم کیاجائے تو حاصل جواب واجب الادا زکات کی رقم ہوگی۔
باقی زکات کی ادائیگی ایک اہم ترین فریضہ ہے جس کا ادا کرنا ہر صاحبِ نصاب شخص پرفرض ہے، اور زکات ادا کرنےسے مال میں کمی نہیں آتی، بلکہ زکات کی ادائیگی مال میں برکت کا باعث ہے جیسے کہ آپﷺ نےفرمایا: زکات کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالی مال کو بڑھاتےہیں،(صحيح البخارى، كتاب الزكاة، رقم الحديث:1410)، اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے : زکات سےکسی بندے کا مال کم نہیں ہوتا۔ (سنن الترمذى، كتاب الزهد، رقم الحديث:2325)
فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے:
( الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابًا ملكًا تامًّا وحال عليه الحول".
(كتاب الزكاة، ج:3، ص:460، ط:دارالفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202200382
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن