بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کا حکم


سوال

میری ہم شیرہ کو اس کے شوہر  نے   3  مرتبہ  طلاق  دی، اس واقعہ کی چشم دید گواہ میری والدہ، چھوٹی ہم شیرہ اور ان کی بھابھی بھی ہے،  جن کو اس شخص نے خود فون کر کے بلوایا تھا، میری  ہم شیرہ  اس وقت 5 ماہ  کے حمل سے تھی، اس سارے تناظر میں کیا فرماتے ہیں  علما ئے کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں کہ  طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ کیوں کہ خاندان کے کچھ افراد کا خیال ہے کہ ایک دم ایک مجلس میں 3  دفعہ طلاق ایک  طلاق شمار ہوگی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا آپ کی ہم شیرہ کے شوہر نے   اسے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہے ہیں تو اس سے اس پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،  دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لیے رجوع کرنا  یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے، نیز  تین طلاق واقع ہونے کے بعد ایک طلاق کا فتویٰ لینے سے بیوی حلال نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ   جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی تصریحات  کے مطابق ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں۔

قرآنِ کریم میں ہے:

 { الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ } [البقرة: 229]

  ترجمہ :وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ  چھوڑ دینا  خوش عنوانی کے ساتھ۔   (بیان القرآن)

امام بخاری رحمہ اللہ  جیسے جلیل القدر  محدث  نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی  کتاب صحیح بخاری میں   یہ باب قائم کیا ہے: " باب من اجاز الطلاق  الثلاث".

صحیح بخاری میں ہے:

"باب من أجاز الطلاق الثلاث  لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229]

(2/791، ط؛قدیمی)

امام قرطبی رحمہ اللہ،  امام بخاری رحمہ اللہ  کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں  کہ:

"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش تھی، جو شخص اپنے اوپر تنگی کرے  اس پر یہ حکم لازم ہوگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں   کہ فتویٰ دینے والے  ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  ایک ساتھ دی گئی تینوں  طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، یہی جمہور سلف کا قول ہے"۔

تفسير القرطبي  میں ہے:

"ترجم البخاري على هذه الآية ( باب من أجاز الطلاق الثلاث بقوله تعالى : الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان ) وهذا إشارة منه إلى أن هذا التعديد إنما هو فسحة لهم فمن ضيق على نفسه لزمه قال علماؤنا واتفق أئمة الفتوى على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة وهو قول جمهور السلف."

(3/129، سورۃ البقرۃ، ط؛دارلکتب المصریۃ، القاھرۃ)

       امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ :آیت   "الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ"  ایک ساتھ دی   گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے، ا گرچہ ایسا کرنا گناہ ہے۔

أحكام القرآن للجصاص میں ہے: 

"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا."

(1 /527 ، ط؛ قدیمی)

اسی طرح ارشادِ ربانی ہے:

 { فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230]

ترجمہ:پھر اگر کوئی (تیسری)  طلاق دے دی  عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد، یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔ (بیان القرآن)

      امام شافعی رحمہ اللہ  " کتاب الام" میں  لکھتے  ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے  جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے  وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب  تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔

کتاب الأم للشافعي میں ہے:

"(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ  يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا."

(5 / 196،  دار المعرفة - بیروت)

احادیثِ مبارکہ  سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ  ایک کلمہ یا ایک مجلس میں دی  جانے والی تین  طلاقیں  واقع ہوجاتی ہیں۔

بخاری شریف  میں ہے:

"عن عائشة، أنّ رجلًا طلق امرأته ثلاثًا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها  كما ذاق الأول»."

 (2/791، باب من اجاز الطلاق الثلاث، ط؛ قدیمی)

  اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثا"  کا لفظ  اس بات پر دلیل ہے  تین طلاقیں اکھٹی دی  گئی تھیں، چناچہ  عمدۃ القاری میں ہے  کہ "طلق امرأته ثلاثًا"  کا  جملہ  یہ اس  حدیث کے  ترجمۃ الباب  کے مطابق ہے، کیوں کہ یہ جملہ اس بات میں ظاہر ہے کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔

"مطابقته للترجمة في قوله: "طلق امراته ثلاثًا" فإنه ظاهر في كونها مجموعةً."

(عمدۃ القاری 2/336، ط: رشیدیہ)

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»."

 (صحيح البخاري (2/791، ط؛قدیمی)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں   صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا   اس بات پر اجماع ہوچکا تھا کہ  ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، اس سلسلے میں محققین  فقہاء  و محدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

الف  : علامہ ابو بکر جصاص  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  قرآن کریم ، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجما ع  ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایسا کرنا گناہ  ہے۔

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"فَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ تُوجِبُ إيقَاعَ الثَّلَاثِ مَعًا وَإِنْ كَانَتْ مَعْصِيَةً."

(1 /529 ، ط؛ قدیمی)

 ب:  علامہ شامی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں  کہ جمہور صحابہ،  تابعین اور ان  کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب  پر ہیں کہ  تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(3 / 233،کتاب الطلاق،  ط ؛سعید)

 ج    :  علامہ نووی رحمہ اللہ   نے لکھا ہے  کہ  جو شخص اپنی بیوی کو کہے  "أنت طلاق  ثلاثًا" (تجھے تین طلاق ہیں) تو امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد اور  جمہور  علماء  فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں  گی۔

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ: يَقَعُ الثَّلَاثُ."

 (1/474، قدیمی)

لہذا مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے  ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں، تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں