اگر کسی حاجی نے بلا عذرِ شرعی طوافِ زیارت 12 ذی الحجہ تک نہیں کیا تو اس کا حکم کیا ہے؟
اگر کوئی حاجی بارہ ذی الحجہ تک طوافِ زیارت کو مؤخر کرتا ہے اور بارہ ذوالحجہ کا سورج غروب ہونے سے پہلے طوافِ زیارت کرلیتاہے تو اس پر کچھ لازم نہ ہو گا، لیکن اگر عذرِ شرعی کے بغیر بارہ ذی الحجہ سے بھی مؤخر کر دیتا ہے تو اس پر دم لازم ہو گا، اور طوافِ زیارت بھی کرنا ہوگا۔ اور جب تک طوافِ زیارت نہیں کرلے گا، تب تک بیوی سے ملنا جائز نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 518):
"(و) طواف الزيارة (أول وقته بعد طلوع الفجر يوم النحر وهو فيه) أي الطواف في يوم النحر الأول (أفضل ويمتد) وقته إلى آخر العمر (وحل له النساء) بالحلق السابق، حتى لو طاف قبل الحلق لم يحل له شيء، فلو قلم ظفره مثلاً كان جناية؛ لأنه لايخرج من الإحرام إلا بالحلق (فإن أخره عنها) أي أيام النحر ولياليها منها (كره) تحريماً (ووجب دم) لترك الواجب".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 519):
"(قوله: كره تحريماً إلخ) أي ولو أخره إلى اليوم الرابع الذي هو آخر أيام التشريق، وهو الصحيح، كما في الغاية وإيضاح الطريق". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200808
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن