بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خلع میں عدت تین حیض ہونے کی وجہ وعلت


سوال

سنن ابی داؤد میں موجود حدیث کے  تحت خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے، چونکہ خلع ہو چکی ہے، اور اس میں رجوع کی گنجائش نہیں بچی، تو  عدت کی میعاد تین حیض کیوں ہے؟ کیونکہ خلع طلاقِ بائن ہے ، جس میں رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی۔

جواب

واضح رہے کہ جمہور صحابہ کرام، تابعین و ائمہ مجتہدین کے نزدیک خلع طلاق ہی کی قبیل سے ہے اور خلع سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے،  لہٰذا میاں بیوی کے درمیان خلع سے جو فرقت واقع ہوتی ہے، وہ طلاق ہی ہے،  جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن جمهان، «أن امرأة اختلعت من زوجها بخلعها فجعله عثمان تطليقة وما سمى»".

(مصنف ابن شیبہ، کتاب الطلاق، ما قالوا: في الرجل إذا خلع امرأته، كم يكون من الطلاق؟، رقم الحدیث:18429، ج:4، ص:117، ط:مکتبۃ الرشد)

ترجمہ: حضرت جمہان سے مروی ہے کہ : ایک خاتون نے اپنے شوہر سے خلع لی، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے طلاق قرار دیا۔

"عن سعيد بن المسيب، «أن النبي صلى الله عليه وسلم جعل الخلع تطليقة»".

(مصنف ابن شیبہ، کتاب الطلاق، ما قالوا: في الرجل إذا خلع امرأته، كم يكون من الطلاق؟، ج:4، ص:119، ط:مکتبۃ الرشد)

ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع کو طلاق قرار دیا ہے۔

پس جب خلع طلاقِ بائن ہے، تو جس طرح عام طلاق کی عدت پوری تین ماہواریاں ہیں،  (بشرطیکہ خاتون کو ماہواری آتی ہو)  خلع کی عدت بھی جمہور کے نزدیک تین ماہواریاں ہی ہیں، اور حیض نہ آنے کی صورت میں اس کی عدت تین ماہ ہے، جیسے عام طلاق کی عدت ہوتی ہے،  اور خاتون کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت وضعِ حمل ہوگی، جیسے عام طلاق میں ہوتی ہے، حدیث شریف میں ہے:

"عن نافع، أن ربيع بنت معوذ بن عفراء جاءت هي وعمها إلى عبد الله بن عمر فأخبرته أنها «اختلعت من زوجها في زمان عثمان بن عفان، فبلغ ذلك عثمان بن عفان فلم ينكره، وقال عبد الله بن عمر» عدتها عدة المطلقة.

وحدثني عن مالك أنه بلغه أن سعيد بن المسيب، وسليمان بن يسار وابن شهاب كانوا يقولون: «عدة المختلعة مثل عدة المطلقة ثلاثة قروء»".

(موطا لابن مالک، کتاب  الطلاق، باب طلاق المختلعۃ، رقم الحدیث:133 ج:2، ص:565، ط:داراحیاء التراث العربی)

ترجمہ: ربیع بنتِ معوذ بن عفراء اپنے چچا کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی عنہما کی خدمت میں دریافت کرنے تشریف لائیں کہ انہوں نے اپنے شوہر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  خلع لی ہے، حضرت عثمان کو اس بات کی خبر ہوئی، تو انہوں نے انکار نہیں کیا، اور عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس کی عدت طلاق کی عدت ہے، امام مالک فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، اور ابن شہاب فرمایا کرتے تھے کہ خلع یافتہ خاتون کی عدت عام مطلقہ خاتون کی عدت کی طرح تین حیض عدت ہے۔

رہی بات سنن ابی داؤد کی درج ذیل روایت کی:

"عن عكرمة، عن ابن عباس، «أن امرأة ثابت بن قيس اختلعت منه، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم عدتها حيضة».

(کتاب الطلاق، باب فی الخلع، رقم الحدیث:2229، ج:2، ص:269، ط:المکتبۃ العصریۃ)

تو اس کے بارے میں  محدثین و فقہاء فرماتے ہیں کہ: ( عدتها حيضةً) کا مطلب ایک حیض نہیں، بلکہ جنس مراد ہے یعنی اسے عام طلاق یافتہ خواتین کی طرح حیض شمار کرکے عدت گزارنی ہوگی۔ بالفرض اگر مذکورہ روایت سے ایک حیض ہی عدت تسلیم کی جائے تو  اس صورت میں مذکورہ روایت  چوں کہ قرآنِ مجید میں بیان کردہ مطلقہ کی عدت کے اَحکام کے خلاف ہے  اس کی وجہ سے مذکورہ خبر واحد پر عمل ترک کرکے قرآنی حکم پر عمل کیا جائے گا۔

فقہاءِ کرام نےخبر واحد پر عمل کے لیے ضابطہ مقرر کیا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے حکم کے معارض نہ ہو، کیوں کہ خبر واحد کے ذریعہ  کتاب اللہ کے حکم کو ترک کرنا، یا اس میں تبدیلی  یا کمی بیشی کرنا جائز نہیں۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود " میں ہے:

"(اختلعت  منه، فجعل النبي - صلى الله عليه وسلم - عدتها حيضة) ، واختلف في الخلع أنه فسخ أو طلاق ؟ فقال أبو حنيفة وأصحابه، وابن أبي ليلى، وأحد قولي الشافعي: إنه الطلاق البائن، وحكي ذلك عن علي وعمر وعثمان، وقال أحمد بن حنبل، وطاوس، وإسحاق، وأبو ثور، وابن المنذر، وهو أحد قولي الشافعي: إنه فسخ لا طلاق، حكي ذلك عن ابن عباس وعكرمة.

واستدلوا بهذا الحديث بأنه لو كان طلاقا لكان العدة ثلاثة قروء، فالتربص بحيضة يشعر بأنه فسخ، فيكفي فيه الحيضة الواحدة.

وأجاب عنه بعض العلماء: أن المراد بالحيضة هو الجنس الذي يصدق على القليل والكثير، فالمراد أن العدة بالحيض لا بالأشهر، فلا يدل على وحدة الحيضة، وتعقب بأنه وقع في النسائي التصريح بالوحدة، ويجاب عنه بأن زيادة الوحدة في رواية النسائي مبني على فهم الراوي، بأنه فهم من لفظ الحيضة حيضة واحدة، فرواها كما فهم.

قال في "فتح الودود": من لا يقول به يقول: إن الواجب في العدة ثلاثة قروء بالنص، فلا يترك النص بخبر الآحاد.

واحتج القائلون بأنه طلاق بما وقع في حديث ابن عباس من أمره - صلى الله عليه وسلم - لثابت بالطلاق.

وبما رواه الدارقطني في "سننه"  من حديث عباد بن كثير، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس: "أن النبي - صلى الله عليه وسلم - جعل الخلع تطليقة بائنة"، وسكت عنه. ورواه ابن عدي في "الكامل" وأعله بعباد، وأسند عن البخاري أنه قال: تركوه، وعن النسائي أنه قال: متروك الحديث، وعن شعبة أنه قال: احذروا حديثه. وبما رواه عبد الرزاق في "مصنفه" : حدثنا ابن جريج، عن داود بن أبي عاصم، عن سعيد بن المسيب: "أن النبي - صلى الله عليه وسلم - جعل الخلع تطليقة"، وكذلك رواه ابن أبي شيبة، وروى مالك عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن جمهان مولى الأسلميين، عن أم بكرة الأسلمية: أنها اختلعت من زوجها عبد الله بن خالد بن أسيد، فأتيا عثمان بن عفان في ذلك، فقال: هي تطليقة.

وروى ابن أبي شيبة بسنده إلى ابن مسعود أنه قال: لا تكون طلقة بائنة إلا في فدية أو إيلاء، وروي نحوه عن علي أيضا، كذا في "البرهان في شرح مواهب الرحمان".

وقال الزيلعي في "نصب الراية" : روى مالك في "الموطأ" عن نافع: "أن ربيع بنت معوذ جاءت هي وعمتها إلى عبد الله بن عمر، فأخبرته أنها اختلعت من زوجها في زمان عثمان بن عفان، فبلغ ذلك عثمان فلم ينكره، فقال ابن عمر: عدتها عدة المطلقة".

قال مالك: إنه بلغه أن سعيد بن المسيب، وسليمان بن يسار، وابن شهاب كانوا يقولون: عدة المختلعة ثلاثة قروء.

وأيضا بما رواه أبو داود في "المراسيل" ، عن سعيد بن المسيب: "أن المرأة كانت تحت ثابت بن قيس بن شماس، وكان أصدقها حديقة، وكان غيورا، فضربها فكسر يدها، فجاءت إلى النبي - صلى الله عليه وسلم -، فاشتكته إليه، فقالت: أنا أرد إليه حديقته، فدعا زوجها، فقال: إنها ترد عليك حديقتك، قال: أو ذلك لي؟ قال: نعم، قد قبلت يا رسول الله، قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: اذهبا، فهي واحدة، ثم نكحت بعده رفاعة العائذي فضربها، فجاءت عثمان فقالت: أنا أرد عليه صداقه، فدعاه عثمان، فقال عثمان: اذهبا فهي واحدة".

(کتاب الطلاق، باب فی الخلع، ج:8، ص:222، ط:مرکز نخب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں