بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے اور بچی کے پیشاب کے بارے میں حنفیہ کا مسلک


سوال

درج ذیل فتوی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ 

پیشاب پلید ہے، اسے دھونا چاہیے ، البتہ بچے کے پیشاب میں شریعت نے کچھ نرمی کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "لڑکی کے پیشاب سے آلودہ کپڑا دھویا جائے،  البتہ لڑکے کے پیشاب سے آلودہ کپڑے پر چھینٹے مارے جائیں گے۔" (سنن ابی داؤد،الطہارۃ:376)  لیکن یہ اس وقت  ہے جب بچہ دودھ پیتا ہو ، جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے ، چنانچہ  حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا اپنے چھوٹے بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں جو ابھی دودھ پیتا تھا، اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، اس پر چھینٹے مارے ، لیکن اسے دھویا نہیں۔ (مستدرک حاکم ص166ج1)  البتہ اگر لڑکی کسی کے کپڑے پر پیشاب کر دے تو اسے دھونا چاہیے،  وہ صرف چھینٹے مارنے سے پاک نہیں ہو گا،  کیونکہ پیشاب ناپاک ہے خواہ بچی کا ہو یا بچے کا، البتہ بچے کے پیشاب کے لیے شریعت نے کچھ نرمی رکھی ہے کہ اسے دھونے کے بجائے کپڑے پر صرف چھینٹے مار دیے جائیں۔ صورت مسئولہ میں اگر کپڑے پر کسی لڑکی کا پیشاب لگا ہے تو اسے دھو لیا جائے اور اگر شیرخوار بچے کا پیشاب ہے تو اس پر ویسے ہی پانی بہا دیا جائے، اسے دھونے کی ضرورت نہیں۔ (واللہ اعلم) ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

(فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد4۔صفحہ نمبر 51 ، محدث  فتویٰ) 

جواب

دودھ پیتے بچے اور بچی کے پیشاب کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف احادیث صحیح سندوں سے منقول ہیں۔ چنانچہ امام ابو داؤدكی ايك روايت  ميں ہے :

" قال: "إنما يُغسَلُ من بَولِ الأُنثى، ويُنضَحُ مِن بَولِ الذّكَر".

(سنن أبي داؤد، كتاب الطهارة، باب بول الصبي يصيب الثوب، الرقم:375، 1: 279، دار الرسالة العالمية، ط: الأولى، 1430ھ)

ترجمہ:"آپ صلی الله عليہ وسلم نے فرمایا: بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا، اور بچے کے بیشاب پر چھینٹے مارے جائیں۔"

اور  صحیح مسلم كی ایک روایت میں ہے:

"عن عائشة، قالت: "أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بصبي يرضع، فبال في حجره، فدعا بماء فصبه عليه".

( صحيح مسلم، باب حكم بول الطفل الرضيع، وكيفية غسله، الرقم: 286، 1: 237، دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ پیتا بچہ لایا گیا،اس نے آپ کی گود مبارک میں پیشاب کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگواکر اس پر انڈیل دیا۔

اسي طرح   اور كئي  احادیث  ہیں، جن میں سے  بعض میں بچے کے پیشاب پر پانی انڈیلنے کا حکم ہے، اور بعض میں صرف پانی چھڑک دینے کا بیان ہے، ائمہ حنفیہ ان دونوں قسم کی روایات کو سامنے رکھتے هوئے فرماتے ہیں کہ بچے کے پیشاب کو غسلِ خفیف سے بھی دھویا جائے کافی ہے ، اور بچی کے پیشاب کو مبالغہ کے ساتھ دھونا ضروری ہے، اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچی کے پیشاب کے نکلنے کا مخرج وسیع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ پھیل جاتا ہے، اور اس کو دھونے کے لیے زیادہ محنت درکار ہوتی ہے،جبکہ بچہ کا مخرج تنگ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ پھیلتا نہیں، لهذا  اس کیے لیے صرف پانی انڈیلنا، اور غسل ِخفیف کافی ہو جاتا ہے۔

امام طحاوی رحمہ اللہ تعالی اس قسم کی تمام روایات  نقل کرنے کے بعد  فرماتے ہیں:

"فثبت بهذه الآثار أن حكم بول الغلام هو الغسل، إلا أن ذلك الغسل، يجزئ منه الصب، وأن حكم بول الجارية هو الغسل أيضا. وفرق في اللفظ بينهما وإن كانا مستويين في المعنى؛ للعلة التي ذكرنا، من ضيق المخرج وسعته".

(شرح معاني الآثار، باب حكم بول الغلام والجارية قبل أن يأكلاالطعام، 1: 92- 94، عالم الکتب، ط: الأولى، 1414ھ)

ترجمہ:"ان آثار وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کے پیشاب کا حکم  دھونا ہے،لیکن اس کے دھونے کے لیے پانی انڈیلنا کافی ہے، اور بچی کے پیشاب کا حکم بھی دھونا ہے، اور دونوں كا حكم ايك ہونے كے باوجود روایات میں جو فرق  بیان کیا گیا ہے ، اس کی وجہ يہ ہے   کہ بچے کا مخرج تنگ ہوتا ہے، اور بچی کا مخرج کشادہ ۔"

فقط  والله اعلم 


فتوی نمبر : 144104201030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں