جیسے نماز کے دوران 45 درجے کے اندر انحراف سے نماز درست ہوجاتی ہے، جانبین سے 45، 45 درجے انحراف ہو تو استقبالِ قبلہ کے فوت ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں امت کی سہولت ہے، تو کیا بیت الخلا اور غسل خانے میں استقبال و استدبار میں بھی یہی حکم ہوگا کہ اگر 45 درجے اندر اندر رخ کردیا گیا تو مکروہِ تحریمی ناجائز ہوگا؟ اس صورت میں تو تیسیر کی بجائے سختی ہوجائے گی؟ دلائل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیے۔
میں نے اپنے اکابر کی کسی تحریر میں پڑھا تھا کہ بیت الخلا میں استقبال اور استدبار کے حوالے سے یہ حکم نہیں ہے کہ 45 ،45 درجے کے اندر بھی رخ منع ہے، بلکہ اگر کسی قدر انحراف پایا گیا جس سے اطمینان ہوجائے کہ یہ قبلہ رخ نہیں ہے تو کراہت ختم ہوجائے گی، جیساکہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے فرمایا:"فننحرف عنها ونستغفر الله".
واضح رہے کہ "قبلہ" صرف عینِ کعبہ کی سمت نہیں ہے، بلکہ اس کے دائیں طرف پینتالیس (45) درجے اور بائیں طرف پینتالیس (45) درجے بھی قبلہ کی جہت ہے؛ لہٰذا قضائے حاجت کرنے والے شخص اور بیت الخلاءکا رخ اور پشت دائیں اور بائیں دونوں طرف کعبہ کی سمت سے کم از کم پینتالیس (45) درجےمنحرف ہونا ضروری ہے۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں جس طرح نماز کے درست ہونے کے لیے 45 درجہ کے اندر قبلہ رو ہونا ضروری ہے ،اسی طرح بیت الخلاء میں قبلہ کی تعظیم کی وجہ سے 45 درجے کے اندر قبلہ رو ہونا یا قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا شرعاً ناجائز ہے ،البتہ اگر کسی جگہ بیت الخلاء ایسے بنے ہوں کہ اس کا رخ یا پشت قبلہ کی طرف ہو تو ایسی صورت میں ممکنہ حد تک سمتِ قبلہ سے منحرف ہوکر بیٹھنے کی کوشش اور استغفار کرلیا کریں جیسا کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
(كما كره) تحريما (استقبال قبلة واستدبارها ل) أجل (بول أو غائط) فلو للاستنجاء لم يكره (ولو في بنيان) لإطلاق النهي (فإن جلس مستقبلا لها) غافلا (ثم ذكره انحرف) ندبا لحديث الطبري
(قوله: استقبال قبلة) أي: جهتها كما في الصلاة فيما يظهر. ونص الشافعية على أنه لو استقبلها بصدره وحول ذكره عنها وبال لم يكره بخلاف عكسه. اهـ. أي: فالمعتبر الاستقبال بالفرج، وهو ظاهر قول محمد في الجامع الصغير " يكره أن يستقبل القبلة بالفرج في الخلاء " وهل يلزمه التحري لو اشتبهت عليه كما في الصلاة؟ الظاهر نعم، ولو هبت ريح عن يمين القبلة ويسارها وغلب على ظنه عود النجاسة عليه فالظاهر أنه يتعين عليه استدبار القبلة حيث أمكن؛ لأن الاستقبال أفحش - والله أعلم -۔۔۔۔۔۔۔(قوله: فانحرف عنها) أي: بجملته أو بقبله حتى خرج عن جهتها والكلام مع الإمكان، فليس في الحديث دلالة على أن المنهي استقبال العين كما لا يخفى فافهم."
(كتاب الطهارة،فصل الإستنجاء،ج:1،ص:341،سعيد)
معارف السنن میں ہے :
"قوله : فننحرف عنها ،الضمير إما يرجع إلي القبلة،فالمعني :كنا نتخلي فيها ونميل عن سمت القبلة قدر ما أمكن لنا ونستغفر الله من عدم تحويل السمت كاملا وهو الأقرب ."
(باب النهي عن استقبال القبلة بغائط أو بول ،ج:1،ص:90،سعيد)
بغیۃ الاریب فی مسائل القبلۃ والمحاریب میں ہے :
"أن تعظيم الكعبة لا ننكره،ولكن مهما تعذر تعظيم عينها وجب علينا تعظيم جهتها لوقوع عين الكعبة في تلك الجهة،كما نعظمها عندالتخلي،والإستنجاءوكشف العورة،فلا نستقبلها ولا نستدبرها ،فلم يفت توقير عين الكعبة واحترامها ،بل أوجب ذلك مزيد شرفها و مجدها في القلوب والأخذ بالمعلوم بالأحوط عند القدرة،فإذا تعذر علينا ولم نقدر فكيف نكلف بها وما ذاك إلا تكليف فوق الوسع ولا يكلف الله نفسا إلا وسعها."
(ص:85،المجلس العلمي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144106201239
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن