کچھ سال پہلے میری بیوی کے ساتھ کسی بات پہ لڑائی ہوگئی وجہ پتا نہیں کہ کیا تھی، میں نے غصے کی حالت میں کہا: ”آ ج سے تم مجھ سے رہ گئی ہو"۔ مجھے نہیں پتا کہ اس وقت طلاق کا مذاکرہ چل رہا تھا یا نہیں، دوسری با ت مجھے طلاق کی نیت کا بھی بالکل کنفرم نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں اپنی بیوی سے چوں کہ بہت پیار کرتا ہوں؛ اس لیے اگر میں غصے نہ ہوتا تو شاید یہ لفظ نہ بولتا یا پھر مجھے اس طرح کہ کنایہ الفاظ کا پتا ہوتا تو پھر بھی نہ کہتا اس طرح کے الفاظ، مطلب کہنے کا یہ ہے اگر نیت اس صورت میں کنفرم نہ ہو تو پھر وضاحت فرما دیں، بندہ وسوے کا بھی شکار ہوگیا ہے، اس طرح کے الفاظ کے بارے میں سوچ کر۔
صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، طلاق کے بارے میں وسوسوں کا شکار نہ ہوں، اور ان وساوس کی طرف دھیان نہ دیں، نیز جب تک طلاق دینا یقین سے ثابت نہ ہو ، شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔البحر الرائق(۳۰۳/۳):
"إذا قال: لا حاجة لي فيك، أو لاأريدك أو لاأحبك أو لاأشتهيك أو لا رغبة لي فيك؛ فإنه لايقع وإن نوى في قول أبي حنيفة".
بدائع الصنائع (3/199):
"عدم الشک من الزوج في الطلاق وهو شرط الحکم بوقوع الطلاق حتی لو شک فیه لایحکم بوقوعه". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004201585
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن