بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی شرم گاہ کے علاوہ سے استمتاع کا حکم


سوال

اگر ایام حیض یا  ایام نفاس کے دوران یا عام دنوں میں مرد اپنی بیوی کی شرم گاہ کے علاوہ کسی اور جگہ میں انزال کرے ، مثلاً: اپنے بیوی سے ملاپ کرے اور اپنے عضو تناسل کو  بیوی کےجسم کے کسی بھی حصے پر رگڑے ، بس دخول نہ کرے اور اس عمل سے دونوں میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو انزال ہو جائے  تو کیا یہ عمل شرعا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  بیوی ماہواری یا ولادت کے بعد مخصوص ایام کی وجہ سے ناپاکی کی حالت میں ہو  تو شوہر کو غلبہ شہوت کی بنا  پر تسکین کے لیے سوال میں ذکر کردہ طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ ناف سے لے کر گھٹنوں کے درمیانی حصے میں موٹا کپڑا حائل کیے بغیر نہ ملے۔   البتہ عام حالت میں  اس سے  اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

(قوله: و قربان ما تحت إزار) من إضافة المصدر إلى مفعوله، والتقدير: ويمنع الحيض قربان زوجها ما تحت إزارها كما في البحر (قوله: يعني ما بين سرة وركبة) فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دمًا.

( الدر المختار وحاشية ابن عابدين، 1 / 292، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا.......

ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،2 / 399، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه.

و في الرد: (قوله ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه.

(4 / 27)

فقط وا للہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں