بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

تلاوت کو چھوڑ کر تعلیمی حلقہ میں شرکت کی ترغیب دینا


سوال

میں ایک حافظ قرآن ہوں  اور میں بعد نمازِ ظہر اور بعد نمازِ عصر تلاوت کرتا ہوں،  جب میں تلاوت میں مشغول ہو جاتا ہوں تو بعض تبلیغی حضرات مجھے کہتے ہیں کہ یہ انفرادی عمل ہے اور وہاں پر ہمارا اجتماعی عمل ہے؛ لہذا اس کا یعنی قرآنِ کریم کا ثواب کم ہے اور وہ اجتماعی عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت قطرہ ہے اور تبلیغی عمل کا ثواب مثل دریا ہے۔ اور بعض تو اس حد تک کہتے ہیں کہ جب اجتماعی عمل شروع ہو تو قرآن کی تلاوت کا کوئی  فائدہ نہیں ہے۔ برائے مہربانی میری راہ نمائی  کریں؟

جواب

جو آدمی جماعت میں نکل کر وقت لگا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ جماعت کے اجتماعی اعمال کو اپنے انفرادی اعمال پر ترجیح دے ، تاہم عام حالات میں اگر کسی جگہ تعلیم  یا وعظ ونصیحت کاحلقہ لگا ہوا ہو اور کوئی شخص اس دوران الگ جگہ پر بیٹھ کر تلاوت، ذکر و اذکار یا انفرادی نوافل میں مشغول ہو تو اسے زبردستی تعلیم کے حلقے میں بٹھانا درست نہیں ہے،  ہر آدمی جماعت کے اجتماعی اعمال میں جڑنے کا مکلف نہیں ہے؛ لہذا اگر آپ تعلیم کے وقت میں اپنی تلاوت کا معمول پورا کرنا چاہیں تو بلا کراہت کرسکتے ہیں،  تلاوت بھی بعثتِ نبی ﷺ کے مقاصد میں سے ہے۔

﴿رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ﴾ [البقرة:129]

ترجمہ: اے ہمارے رب! اور بھیج ان میں ایک عظیم الشان رسول ان ہی میں سے جو ان کے سامنے آپ کی آیات تلاوت کرے، اور انہیں کتاب و حکمت سکھائے، اور ان کا تزکیہ کرے، بلاشبہ آپ ہی زبردست حکمت والے ہیں۔

ہاں اتنا اہتمام کرلیں کہ تعلیم کی جگہ سے ہٹ کر بیٹھ جایا کریں؛ تاکہ اس میں خلل نہ آئے۔

’’دارمی‘‘ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مسجدِ نبوی میں دو مجلسوں پر گزر ہوا،  آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں ہی خیر پر ہیں، البتہ ان میں سے ایک افضل ہے دوسری سے، (ایک مجلس والوں کے حوالے سے فرمایا:) جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے تو یہ اللہ سے دعا کررہے ہیں اور اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں، سو اللہ چاہے تو انہیں عطا کرے اور چاہے تو عطا نہ کرے، اور (دوسری مجلس کے بارے میں فرمایا:) جہاں تک ان کا تعلق ہے تو یہ فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں، اور جاہلوں کو سکھارہے ہیں، لہٰذا یہ افضل ہیں، اور مجھے بھی معلم بناکر بھیجا گیا ہے، پھر آپ ﷺ اسی مجلس میں تشریف فرما ہوئے۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں بھی مسجدِ نبوی میں مختلف لوگ مختلف نیک اعمال میں مشغول ہوتے تھے، اور ان پر کسی قسم کی نکیر نہیں کی جاتی تھی،  انہیں انفرادی نیک اعمال سے نہیں روکا جاتا تھا، چناں چہ جو لوگ ذکر و دعا میں مشغول تھے رسول اللہ ﷺ نے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں روکا نہیں کہ آپ بھی تعلیم و تعلم کی مجلس میں آجائیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی مجلس میں تشریف فرماہیں، اور افضل مجلس بھی یہی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دین کے ہر حکم میں اعتدال ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اجتماعی عمل اور امت کی فکر اور ناواقفوں کو کلمہ اور دین کے مسائل سکھانا انفرادی عمل سے کہیں بڑھ کر اجر و ثواب رکھتاہے، لیکن انفرادی نیک اعمال اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،  ہر عمل اور بات کا ایک موقع ہوتاہے، وقت کے تقاضے اور حکمت و تدبیر کو ملحوظ رکھنا بھی دعوت و اِصلاح کی بنیادی شرائط میں سے ہے، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ۔۔۔ میرا بندہ میرے مقرر کردہ فرائض سے زیادہ کسی ایسی چیز سے میرے قریب نہیں ہوسکتا جو مجھے محبوب ہو، اور میرا بندہ مسلسل نفلی اعمال کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتاہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتا ہوں ۔۔۔ الخ  یعنی فرائض کے اہتمام کے ساتھ نفلی اعمال کی یہ فضیلت ہے کہ اس سے بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں