زید نے عمر کو کہا: مجھے قرض روپے دے دو، اس نے کہا: میرے پاس نہیں تو زید نے اس سے کہا: تین انگلیاں پکڑ کر بتاؤ کہ تمہارے پاس روپے نہیں، (تین انگلیاں پکڑنا پٹھانوں کی اصطلاح میں طلاق کے طور پر کیا جاتا ہے)تو عمر نے انگلیاں پکڑ کرکہا کہ میرے پاس پیسے نہیں، حال آں کہ اس کے پیسے موجود تھے اور عمر کہتے ہیں کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو اس صورت میں طلاق کاکیا حکم ہے؟
اگر عمر نے زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے، صرف تین انگلیاں پکڑ کر یہ کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی، کیوں کہ طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ ہوناضروری ہیں۔
"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالةً على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكمًا ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله: أنت طالق، هكذا كما سيأتي.
وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظًا لا صريحًا ولا كنايةً لايقع عليه، كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البواديمن أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق وإن نواه". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 230) فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200645
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن