بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اکیلے نماز شروع کردی اور جماعتِ ثانیہ شروع ہوگئی، تو اس میں شریک ہونا


سوال

اگر ایک آدمی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو اور اتنے میں دوسری جماعت شروع ہو جاتی ہے۔تو پھر اس کے لیے کیا حکم ہے؟  کیا یہ اپنی  نماز مکمل کرے یا پھر نماز توڑ کر ان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے؟یہاں دبئی میں  دوسری  جماعت کا معمول عام ہے۔

جواب

ایسی  مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں/ اہلِ مسجد  کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ  تحریمی ہے، دوسری جماعت  سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس  سے پہلی جماعت کے افراد  بھی کم ہوجائیں گے اور ہر  ایک یہ سوچے گا کہ میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا، جب کہ   شریعتِ مطہرہ  میں  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے  کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ اور نماز کی جماعت میں کثرت بھی مطلوب ہے، جب کہ ایک سے زائد جماعت کرانے میں کثرت کی بجائے تفریق ہے۔

لہذا ایسے مقام پرجو آدمی پہلی جماعت کے رہ جانے کی وجہ سے انفرادی طور پر نماز ادا کررہاہواسے جماعتِ ثانیہ میں شامل ہونے کی بجائے اپنی نماز مکمل کرلینی چاہیے، نیز مقررہ جماعت کے ساتھ ہی نماز اداکرنے کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، جان بوجھ باجماعت نماز ترک کرنا سخت گناہ ہے، اگر ایک مسجد کی مقررہ جماعت کی نماز میں شریک نہ ہوسکے تو قریبی کسی دوسری مسجد جہاں جماعت سے نماز کے ملنے کا امکان ہووہاں شریک ہوجانا چاہیے، یاگھر میں اہل وعیال کو جمع کرکے باجماعت نماز اداکرے؛ تاکہ جماعت  کے ثواب سے بالکلیہ محروم نہ ہواور انفرادی نماز پڑھ لینے کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔

البتہ اگر دوسری جماعت مسجد کی حدود سے باہر ہو رہی ہو یا ایسی مساجد جو راستوں پر بنی ہوتی ہیں، جہاں مسافر  آکر اپنی جماعت کراتے ہیں، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے، اور ایسے مقام پر اکیلے نماز پڑھنے والے کو انفرادی نماز کے بجائے جماعت کی نماز میں شامل ہوناچاہیے۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعتِ ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعتِ ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے‘‘۔(کفایت المفتی ،جلد سوم ، ص:140،کتاب الصلوۃ ،دارالاشاعت)

’’لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳)

فتاوی شامی میں ہے:

" ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى فيه أهله يصلون وحداناً وهو ظاهر الرواية اهـ".(1/ 553)

وفیه أیضاً:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".  (1/ 552، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں