رمضان میں جو روزے چھوٹ جاتے ہیں(بیماری میں یا حیض نفاس میں)تو ان کی قضا رکھنی چاہیے، اگر کوئی نہ رکھ سکے تو فدیہ ادا کرنا ٹھیک ہے یا وہ رکھنے ہیں ہر حال میں؟ اگر فدیہ ٹھیک ہے تو ایک روزے کا کتنا فدیہ ہو گا ؟
مذکورہ صورت میں روزے کا فدیہ ادا کرنے سے قضا کا حکم ساقط نہیں ہوگا، بلکہ ان روزوں کی قضاکرنا ہی لازم ہے، واضح رہے کہ فدیہ کا حکم شرعاً صرف اس شخص کے لیے ہے جو کسی دائمی مرض(جس بیماری سے صحت کی امید نہ ہو) میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے روزے کی طاقت نہ ہو یا شیخ فانی ہو( یعنی انتہائی بوڑھا ہو چکا ہو اور روزے کی طاقت نہ ہو) اس کے علاوہ کسی صورت میں فدیہ کی ادائیگی سے قضا کا حکم ساقط نہیں ہوگا۔
حاشية رد المختار على الدر المختار (2/ 74)
"أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته حتى أن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياماً أخر، وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر هذا ما قالوه، ومقتضاه أن غير الشيخ ليس له أن يفدي عن صومه في حياته؛ لعدم النص".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200189
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن