کوئی شخص حج ادا کرنے جائے اور بغیر کسی معقول وجہ کے بغیر حج کیے جدہ یا مکہ سے واپس آجائے اور عمرہ بھی نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے احرام کی نیت نہیں کی تھی، بلکہ میقات سے بغیر احرام کے گزرگیا اور بعد میں حج یا عمرہ کے بغیر واپس آگیا تو اس پر حدودِ حرم میں ایک دم دینا اور ایک حج یا عمرہ کی قضا کرنا لازم ہوگا۔
اور اگر حج کا احرام باندھ چکا تھا یعنی احرام کا کپڑا پہن کر حج کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ چکا تھا ، اس کے بعد بغیر عذر کے واپس ہوگیا تو وہ احرام سے نہیں نکلے گا، جب تک حدودِ حرم میں ایک دم نہ دے ، جب اس کی طرف سے حدودِ حرم میں جانور ذبح کرلیا جائے تو اس کے احرام کھولنا جائز ہوگا، آئندہ اس حج کی قضا بھی لازم ہوگی۔
’’فتاوی عالمگیری‘‘ میں ہے:
"ولايجوز للآفاقي أن يدخل مكة بغير إحرام نوى النسك أو لا، ولو دخلها فعليه حجة أو عمرة، كذا في محيط السرخسي في باب دخول مكة بغير إحرام. ومن كان داخل الميقات كالبستاني له أن يدخل مكة لحاجة بلا إحرام إلا إذا أراد النسك؛ فالنسك لايتأدى إلا بالإحرام، ولا حرج فيه، كذا في الكافي". (1/ 221، کتاب المناسک، ط: رشدیه)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 553):
"قال في اللباب: واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لايخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرماً، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لايخرج منه بهذا القصد؛ فإنها لاتعتبر منه". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200149
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن