میں نے حج کے لیے دو ہزر (۲۰۰۰)ریال خرید لیے ہیں اور میں صاحبِ زکاۃ ہوں، کیا میں ان میں سے بھی زکاۃ ادا کروں گا یا نہیں؟ اور اس سے پہلے جو بینک میں جمع کرا دیے ہیں ان پر بھی زکاۃ ادا کروں گا کہ نہیں؟
آپ کے زکاۃ کی ادائیگی کے وقت (یعنی نصاب پر سال پورا ہونے کے وقت) اگر یہ رقم (دو ہزار ریال) آپ کی ملکیت میں ہوئی تو اس کی زکاۃ ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا، لیکن اگر زکاۃ کی ادائیگی کا وقت آنے سے پہلے یہ رقم خرچ ہوگئی تو پھر اس رقم پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔
جو رقم بینک میں ویزا، ٹکٹ، رہائش، معلم کی فیس، منیٰ ، مزدلفہ و عرفات کے خیمے اور آمد ورفت کی مد میں جمع کروائی گئی ہے اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر روانگی سے پہلے زکاۃ کا سال مکمل ہوگیا ہو اور بینک میں جمع کروائی گئی رقم میں سے کچھ رقم واپس مل جائے تو واپس ملنے والی رقم کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 262):
"أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري. اهـ.
قلت: وأقره في النهر والشرنبلالية وشرح المقدسي، وسيصرح به الشارح أيضاً، ونحوه قوله في السراج سواء أمسكه للتجارة أو غيرها، وكذا قوله في التتارخانية نوى التجارة أولا، لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقاً لظاهر عبارات المتون كما علمت، وقال ح: إنه الحق، فالأولى التوفيق بحمل ما في البدائع وغيرها، على ما إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضاً في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201127
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن