بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضانت (بچے کی تربیت) کے مسائل


سوال

 میری  شادی کو 11 ماہ ہوئے ہیں، اور میں تقریبًا  5 ماہ کی حاملہ ہوں،  2 ماہ سے میرے شوہر نے  مجھے والدین کے گھر چھوڑا ہوا ہے  اور  کوئی خیر خیریت نہیں معلوم کرتے،کوئی نان نفقہ نہیں دیتے، اور جب ان سے کہا ہے کہ کسی عالمِ  دین کے پاس چل کے صلح یا فیصلہ کروا لیتے ہیں تو اس کے لیے بھی راضی نہیں ہیں ۔ اب سوال یہ  ہے کہ اگر وہ طلاق دے دیں یا میں خلع لے لوں تو بچے کا کیا ہوگا؟ اس کا خرچہ اور تربیت کس کی ذمہ داری  ہے؟  کیا طلاق کے بعد ماں پر بچے کی تربیت فرض ہوتی ہے ؟ اگر اسے 7 سال بعد بچہ باپ کو دینا ہی  ہے تو کیا وہ اگر پیدائش کے فورًا بعد  بچہ باپ کو دے دے اور دودھ بھی نہیں پلائے تو کیا وہ گناہ گارہوگی؟ دوسری طرف اگر باپ بچہ کو لینے سے انکار کردے ار اس کا خرچہ نا اٹھائے تو کیا پھر بھی وہ 7 سال بعد اپنے بچے کو لے سکتا  ہے؟ اس بارے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر طلاق دے دیتاہے یا عورت شرعی طریقہ سے خلع لے لیتی ہے تو بچہ پیدا ہونے تک عدت کرنی ہوگی ، بچہ اگر لڑکا ہواتو سات سال اور اگر لڑکی ہوئی تو نوسال  تک ماں کی پرورش میں  رہے گی اور یہ شرعًا ماں کی ذمہ داری ہےکہ وہ  اس مدت میں  بچے کی تربیت کرے ،  اس دوران اس کاخرچہ اس کے والد کے ذمہ ہوگا،  نہ دینے کی صورت  میں گناہ گار ہوگا ،تاہم یہ گناہ اس کا حقِ پرورش ختم نہیں کرےگا، بلکہ مقررہ مدت کے بعد والد کو بچہ /بچی کو اپنی پرورش میں لینے کاحق ہوگا ۔

اگر والدہ بچے کی پرورش کے لیے راضی نہ ہو تو والدہ کے بعد بچے کی نانی کاحق ہے، انہیں پرورش کا موقع دیاجائے گا، اگر وہ بھی راضی نہ ہوں  تو دادی کاحق ہوگا۔ محض اس وجہ سے کہ بچہ شوہر کو دینا ہے بچے کو دودھ نہ پلانا اس کی حق تلفی ہے ،اس پر عورت گناہ گا ر ہوگی۔ ہاں اگر باہمی رضامندی سے بچے کو کسی ایک کے پاس چھوڑ دیا جائے، اور دوسرے کو ملاقات سے نہ روکا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی  محمدشفیع رحمہ اللہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر33 کے ذیل میں لکھتے ہیں:

'اس آیت سے رضاعت کے چندمسائل معلوم ہوئے:

"اول یہ کہ دودھ پلانادیانتًا ماں کے ذمہ واجب ہے،بلاعذرکسی ضد یاناراضی کے سبب دودھ نہ پلائے توگناہ گارہوگی،اوردودھ پلانے پروہ شوہرسے کوئی اجرت ومعاوضہ نہیں لے سکتی،جب تک وہ اس کے اپنے نکاح میں ہے،کیوں کہ وہ اس کااپنافرض ہے ... البتہ ماں اگربچہ کودودھ پلانے سے کسی ضرورت کے سبب انکارکرےتوباپ کواسے مجبورکرناجائزنہیں،اوراگربچہ کسی دوسری عورت یاجانورکادودھ نہیں لیتاتوماں کو مجبورکیاجائے گا ... چھٹامسئلہ یہ معلوم ہواکہ اگربچے کی ماں دددھ پلانے کی اجرت مانگتی ہے توجب تک اس کے نکاح یاعدت کے اندرہے،اجرت کے مطالبے کاحق نہیں،یہاں اس کانان نفقہ جوباپ کے ذمہ ہے وہی کافی ہے،مزیداجرت کامطالبہ باپ کوضررپہنچاناہے ۔" (معارف القرآن 1/581-582)

(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب‘‘.

 (3/566، باب الحضانۃ، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة‘‘.

 (1/560،  الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ط:  رشیدیہ)

 فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144103200220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں