ہماری کمپنی ایک شخص غیر مختون ہے اس کو ہم نے ختنہ کے لیے تیارکیا، لیکن ایک عالم صاحب نے ان کو کہا کہ اگر آپ صفائی وغیرہ کرتے ہو تو پھر ختنہ کرنا ضروری نہیں، یہ توصرف ایک سنت ہے۔اور ان لوگوں کو کہوجو آپ کو ترغیب دے رہےکہ سنت کو فرض کادرجہ مت دو۔ برائے کرم ہماری راہ نمائی فرمائیں!
اگر سہولت سے ختنہ کرانا ممکن ہو تو ختنہ چھوڑنا درست نہیں، بلکہ اس لیے اگر ستر دیکھنا پڑے تو بھی جائز ہے۔
البتہ اگر اس میں حد سے زیادہ تکلیف ہو اور نو مسلم اس عمر میں ختنہ کرانے سے گھبرا رہا ہو تو اس کو مجبور نہ کیا جائے، ایسی صورت میں ختنہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔
نیز اس بارے میں یہ کہنا کہ سنت کو فرض کا درجہ نہ دیں،درست نہیں ۔اولاً یہ سنت واجب کے قریب درجہ رکھتی ہے، ثانیاً سنت بھی عمل کرنےاور اتباع ہی کے لیے ہے، اور اس سلسلے میں جس قدر اہتمام اور تشدید ضروری ہے اتنی ہونی چاہیے۔ہاں فرض اس سے زیادہ اہتمام اور تشدید کا متقاضی ہے۔
"وأما النظر إلی العورة لأجل الختان، فلیس فیه ترک الواجب لفعل السنة، لأن النظر مأذون فیه للضرورة"۔
(رد المحتارمع الدرالمختار، کتاب الحج، مطلب في مکة:3؍ 505،دار عالم الکتب)
"یحل للرجل أن ینظر من الرجل إلی سائر جسده إلا ما بین السرة والرکبة إلا عند الضرورة، فلا بأس أن ینظر الرجل إلی موضع الختان لیختنه ویداویه بعد الختن"۔
(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان: 5؍123،دار الکتب العلمیة،الطبعة الثانیة،1406ھ)
"إذا جاء عذر فلا بأس بالنظر إلی عورة لأجل الضرورة، فمن ذلک أن الخاتن ینظر ذلک الموضع والخافضة کذلک تنظر، لأن الختان سنة، وهو من جملة الفطرة في حق الرجال لایکمن ترکه"۔ (المبسوط للسرخسي، کتاب الاستحسان، النظر إلی الأجنبیات:10؍163، الغفاریة،کوئٹہ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200219
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن