خطبہ جمعہ میں جو روایات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں پڑھی جاتی ہیں، وہ ثابت ہیں؟ اُن کا درجہ کیا ہے؟ مثلاً:
"أرحم أمتي بأمتي أبوبكر، وأشدهم في أمر الله عمر، وأصدقهم حياء عثمان، وأقضاهم علي، وفاطمة سيدة نساء أهل الجنة، والحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة، وحمزة أسد الله وأسد رسوله، اللهم اغفر للعباس وولده مغفرة ظاهرة وباطنة لا تغادر ذنبا، الله الله في أصحابي، لا تتخذوهم من غرضا، فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، وخير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم".
مذکورہ روایات انہی الفاظ میں ثابت ہیں؟ یا کوئی اور الفاظ ثابت شدہ ہیں تو وہ بتادیجیے۔
واضح رہے کہ خطبہ جمعہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل سے متعلق جو الفاظ مذکور ہیں،یہ الفاظ کسی ایک روایت میں یکجا طور پر مذکور نہیں ہیں، بلکہ مختلف روایات سے لیے گئے ہیں، ذیل میں حسبِ ترتیب ان تمام روایات کی تحقیق وتخریج ذکر کی جاتی ہے:
۱۔روایت:"أرحمُ أُمَّتِيْ بِأُمَّتِيْ أبو بكرٍ، وأشدُّهُم فِيْ أمرِ اللهِ عمرُ، وأصدقُهم حياءً عثمانُ، وأقضاهُم علِيٌّ" کی تحقیق:
مذکورہ الفاظ "سنن الترمذي"، "سنن ابن ماجه"، "سنن النسائي الكبرى"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہيں۔"سنن الترمذي" کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا محمّد بنُ بشّارٍ، قال: حدّثنا عبد الوهاب بنُ عبد المجيد الثقفيُّ، قال: حدّثنا خالدٌ الحذّاءُ، عنْ أبِيْ قِلابةَ عنْ أنس بنِ مالكٍ - رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: أرحمُ أُمَّتِيْ بِأُمَّتِيْ أبو بكرٍ، وأشدُّهُم فِيْ أمرِ اللهِ عمرُ، وأصدقُهم حياءً عثمانُ ... إلخ".
(سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب معاذ بن حبل ... إلخ، 5/665، رقم:3791، ط: مصطفى البابي الحلبي -مصر)
ترجمہ:
’’(حضرت) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں، اور اللہ کے(دین کے) معاملے میں سب سے زیادہ مضبوط عمر ہیں، اور سب سے زیادہ حیا دار عثمان ہیں۔۔۔‘‘۔
امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هَذا حديثٌ حسنٌ صحيحٌ".
(المصدر السابق)
ترجمہ:
’’یہ روایت (سند کے اعتبار سے) حسن صحیح ہے‘‘۔
نیز "سنن ابن ماجه" کی روایت میں "وأقضاهُم علِيُّ بنُ أبِيْ طالبٍ" ( احکامِ قضاء کے سب سے زیادہ جاننےوالے علی بن ابو طالب ہیں)کے الفاظ بھی مذکور ہیں( دیگر روایات میں صرف "وأقضاهُم علِيٌّ" کے الفاظ بھی مذکور ہیں)۔
(سنن ابن ماجه، أبواب السنة، باب في فضائل أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فضائل زيد بن ثابت، 1/107، رقم:154، ط: دار الرسالة العالمية)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"أرحمُ أُمَّتِيْ بِأُمَّتِيْ أبو بكرٍ، وأشدُّهم فِيْ أمرِ اللهِ عمرُ، وأصدقُهم حياءً عثمانُ ... إلخ"سند کے اعتبار سے حسن صحیح ہے ، لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
۲۔روایت:"فاطمةُ سيِّدةُ نِساءِ أهلِ الجنّةِ"کی تحقیق:
مذکورہ الفاظ"صحيح البخاري"، "مسند أحمد"، "مصنّف ابن أبي شيبة"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔"صحيح البخاري" کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا أبو نُعيمٍ، حدّثنا زكريّاء عن فِراسٍ عن عامرٍ عن مسرُوقٍ عن عائشةَ -رضي الله عنها- قالتْ: أقبلتْ فاطمةُ تمشِيْ كأنَّ مِشْيَتَها مَشْيُ النبيِّ صلّى الله عليه وسلّم، فقال النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم: مَرْحباً بِابنتِيْ، ثُمّ أجلسَها عنْ يمينِه أوْ عنْ شمالِه، ثُمّ أسرَّ إليها حديثاً فَبكتْ، فقلتُ لها: لِمَ تبكِينَ؟ ثُمّ أسرَّ إليها حديثاً فَضحِكتْ، فقلتُ: ما رأيتُ كاليومِ فَرَحاً أقربَ مِنْ حُزْنٍ، فسألتُها عمّا قال، فقالتْ: مَا كنتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رسولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم، حتّى قُبِض النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم، فسألتُها، فقالتْ: أسرَّ إليَّ إنّ جبريل كان يُعارِضُنِي القرآن كلَّ سنةٍ مرّةً، وإنّه عارضَنِي العامَ مرّتين، ولا أُراه إلّا حضَر أجلِيْ، وإنّك أوّلُ أهلِ بيتِيْ لَحاقاً بِيْ، فَبكيتُ، فقال: أمَا ترضِين أنْ تكُونِيْ سيِّدةَ نساءِ أهلِ الجنّةِ أو نِساءِ المؤمنين، فَضحِكتُ لِذلكَ".
(صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب من انتظر حتّى تُدفن، 4/204، رقم: 3623-3624، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (حضرت ) فاطمہ رضی اللہ عنہا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) یوں چل کر آئیں گویا اُن کی چال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کے مشابہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُنہیں دیکھ کر) فرمایا: میرے بیٹی کو خوش آمدید ہو!، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنے دائیں یا بائیں جانب بٹھایا، پھر اُنہیں کان میں کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، میں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے اُن سے پوچھا:رَو کیوں رہی ہو؟! پھر (دوبارہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کان میں کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، میں نے کہا: میں نے آج کے دن کی طرح کوئی ایسی خوشی نہیں دیکھی جو غم کے زیادہ قریب ہو، پھر (بعد میں ) میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سے متعلق پوچھا، تو وہ کہنے لگیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی بات ظاہر نہیں کرسکتی ، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (دوبارہ) اُس گفتگو کے متعلق پوچھا، تو وہ کہنے لگیں: (پہلے) آپ نے مجھ سے کان میں یہ بات کہی تھی کہ (حضرت ) جبریل ( علیہ السلام) ہر سال میرے ساتھ قرآنِ کریم کا ایک بار دَور فرماتے تھے ، لیکن اس سال انہوں نے میرے ساتھ دو بار دَور فرمایا ہے، میرے خیال ہے کہ میرے دنیا سے پردہ فرما جانے کا وقت قریب ہے،اور میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے ملو گے، یہ بات سن کر میں رونے لگی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم جنت کی عورتوں ، یا مؤمنین کی عورتوں کی سردا رہوگی ، یہ بات سن کر میں ہنسنے لگی تھی ‘‘۔
"صحيح البخاري"میں دوسری جگہ تعلیقاً یوں بھی مذکور ہے:
"وقال النبيُّ صلّى الله عليه وسلّم: فاطمةُ سيِّدةُ نِساءِ أهلِ الجنّةِ".
(صحيح البخاري، كتاب الجمعة، باب من انتظر حتى تدفن، 5/20، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت :"فاطمةُ سيِّدةُ نِساءِ أهلِ الجنّةِ"سند کے اعتبار سے صحیح ہے ،لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
۳۔روایت:"الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ"کی تحقیق:
مذکورہ الفاظ "سنن الترمذي"، "مسند أحمد"، "مصنف ابن أبي شيبة"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔"سنن الترمذي" کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا محمود بنُ غيلانَ، قال: حدّثنا أبو داود الْحَفَرِيُّ عن سُفيان عن يزيد بنِ أبي زِيادٍ، عن ابنِ أبي نُعْمٍ، عن أبي سعيد الخُدريِّ -رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم: الحسنُ والحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ".
(سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب أبي محمد الحسن بن علي بن أبي طالب والحسين بن علي بن أبي طالب -رضي الله عنهما-، 5/656، رقم:3768، ط: مصطفى البابي الحلبي - مصر)
ترجمہ:
’’( حضرت) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هَذا حديثٌ حسنٌ صحيحٌ".
(المصدر السابق)
ترجمہ:
‘‘یہ حدیث (سند کے اعتبار سے) حسن صحیح ہے‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"الحسنُ و الحُسينُ سيِّدا شبابِ أهلِ الجنّةِ"سند کےاعتبار سے حسن صحیح ہے، لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
۴۔روایت:"حمزةُ أسدُ الله وأسدُ رسولِه"کی تحقیق :
مذکورہ الفاظ "المستدرك على الصحيحين"، "المعجم الكبير"، "معرفة الصحابة"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔"المعجم الكبير" کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدثنا مَسْعَدَة بنُ سعدٍ العطّارُ، ثنا إبراهيم بنُ منذرٍ الحِزامِيُّ، ثنا حاتم بنُ إسماعيلَ، عنْ يحيى بنِ عبد الرحمن بنِ أبِيْ لبيبةَ عنْ جدِّه-رضي الله عنه- أنّ رسولَ الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: والّذِيْ نفسِيْ بِيدِه إنّه لمَكتوبٌ عندَ الله في السّماءِ السّابعةِ حمزة بنُ عبد المطلّب أسدُ الله وأسدُ رسولِه".
(المعجم الكبير، باب الحاء، باب من اسمه حمزة، 3/149، رقم:2952، ط: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
ترجمہ:
’’(حضرت) یحیی بن عبد الرحمن بن ابو لبیبہ (رحمہ اللہ) اپنے دادا(حضرت ابو لبیبہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہےبلاشبہ اللہ کے ہاں ساتویں آسمان پر لکھا ہوا ہے :"حمزة بنُ عبد المطلّب أسدُ الله وأسدُ رسولِه"(حمزہ بن عبد المطلب اللہ کے شیر اور اُس کے رسول کے شیر ہیں)‘‘۔
حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"رَواهُ الطّبرانِيُّ، ويحيى وأبوهُ لم أعرِفْهما، وبقيّةُ رجالِه رجالُ الصّحيحِ".
(مجمع الزوائد، كتاب المناقب، باب ما جاء في فضل حمزة-رضي الله عنه- عم رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ج:9، ص:267-268، رقم:15462، ط: مكتبة القدسي - القاهرة)
ترجمہ:
’’ اس حدیث کو (امام) طبرانی (رحمہ اللہ) نے روایت کیا ہے، (اس کی سند میں) یحیی اور اُس کے والد (عبد الرحمن) کو میں نہیں جانتا، اور بقیہ اس کے رُوات ’’صحیح‘‘ کے رُوات ہیں(یعنی ثقہ ہیں)‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"والّذِيْ نفسِيْ بِيدِه إنّه لمَكتوبٌ عندَ الله في السّماءِ السّابعةِ حمزة بنُ عبد المطلّب أسدُ الله وأسدُ رسولِه"سند میں موجود دو راویوں یحیی اور عبد الرحمن کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، تاہم اس کے ہم معنی الفاظ دیگر روایات بھی موجود ہیں جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
۵۔روایت:"اللّهمَّ اغفِرْ لِلعبّاسِ وولدِه ... إلخ"کی تحقیق:
مذکورہ الفاظ "سنن الترمذي"، "مسند البزار"، "مسند الشاميين"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔"سنن الترمذي"کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا إبراهيم بنُ سعيدٍ الجوهريُّ، قال: حدّثنا عبد الوهاب بنُ عطاءٍ عنْ ثور بنِ يزيدَ عنْ مكحولٍ عنْ كُرَيْبٍ عنْ ابنِ عبّاسٍ-رضي الله عنهما- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- للِعبّاسِ -رضي الله عنه-: إذا كان غداةَ الإِثنين فَأْتِنِيْ أنتَ وولدَك حتّى أدعوَ لهُم بِدعوةٍ ينفعُك اللهُ بِها وولدَك، فَغدَا وغدَوْنا معهُ فألبسَنا كِساءً، ثُمّ قال:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا، اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ".
(سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب(بدون الترجمة)، 5/653، رقم:3762، ط: مصطفي البابي الحلبي -مصر)
ترجمہ:
’’(حضرت) ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُن کے والد حضرت) عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب پیر کے دن کی صبح ہو تو تم اپنی ا ولاد سمیت میرے پاس آنا تاکہ میں اُن کے لیے ایسی دعا کردوں جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو فائدہ دے، چنانچہ (پیر کے دن کی ) صبح وہ اور ہم ساتھ (حضور کی خدمت میں) گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک چادر پہنائی، پھر دعاء فرمائی:"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا، اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ"(اے اللہ! عباس اور اُن کی اولاد کی ایسی ظاہری اور باطنی مغفرت فرمادیجیے کہ اُن کا کوئی گناہ نہ چھوڑیئے، اے اللہ! اُن کی اولاد کے معاملہ اُن کی حفاظت فرمائیے!)’’۔
امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هَذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ لَا نعرِفُه إلّا مِنْ هَذا الوجهِ".
(المصدر السابق)
ترجمہ:
’’یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں( یعنی حدیث کے مذکورہ الفاظ صرف اسی سند میں مذکور ہیں، البتہ اس کے ہم معنی الفاظ دیگر احادیث میں اس کے لیے بطورِ شاہد کے موجود ہیں)‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"إذا كان غداةَ الإِثنين فَأْتِنِيْ أنتَ وولدَك حتّى أدعوَ لهُم بِدعوةٍ ينفعُك اللهُ بِها وولدَك، فَغدَا وغدَوْنا معهُ فألبسَنا كِساءً ثُمّ قال:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا، اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ"سند کے اعتبار سے حسن غریب ہے ، البتہ اس کے هم معنی الفاظ دیگر احادیث میں اس کے لیے بطورِ شاہد موجود ہیں، جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کیاجاسکتا ہے۔
"شرح علل الترمذي لابن رجب"میں ہے:
"... وعلى هذا فلا يُشكل قوله: "حديثٌ حسنٌ غريبٌ"، ولا قوله: "صحيحٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ مِن هذا الوجه"، لأنّ مُراده أنّ هذا اللفظ لا يُعرف إلاّ من هذا الوجه، لكن لِمعناه شواهدُ مِن غير هذا الوجه، وإنْ كانتْ شواهدُ بغير لفظِه. وهذا كما في حديث: "الأعمالُ بالبينات"، فإنّ شواهدَه كثيرةٌ جداً في السنّة، مما يدلُّ على أنّ المقاصد والنيّات هي المؤثّرةُ في الأعمال، وأنّ الجزاء يقعُ على العمل بِحسب ما نُوي به، وإنْ لم يكن لفظُ حديثِ عُمر مرويّاً ِمن غير حديثه مِن وجه يصحُّ".
(شرح علل الترمذي، الباب الأول، القسم الثالث، معنى الحسن عند الترمذي، 2/607، ط: مكتبة المنار، الزرقاء- الأردن)
۶۔روایت:"اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ... إلخ"کی تحقیق:
مذکورہ الفاظ"سنن الترمذي"، "مسند أحمد"، "شعب الإيمان للبيهقي"ودیگر کتب ِ حدیث میں مذکور ہیں۔"سنن الترمذي"کی روایت الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا محمّد بنُ يحيى، قال: حدّثنا يعقوب بنُ إبراهيم بنِ سعدٍ، قال: حدّثنا عَبِيدة بنُ أبي رائِطةَ عن عبد الرحمن بنِ زيادٍ عن عبد الله بنِ مُغفَّلٍ-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- : اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَه".
(سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب في من سبّ أصحاب النبي -صلّى الله عليه وسلّم-، 5/696، رقم:3862، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)
ترجمہ:
’’(حضرت) عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے بارے میں،میرے بعد انہیں ہدفِ ملامت مت بنانا، جو شخص ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا، اور جو شخص ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا،اور جس شخص نے انہیں ایذاء وتکلیف پہنچائی اس نے مجھے ایذاء وتکلیف پہنچائی ، اور جس شخص نے مجھے ایذاء وتکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالی کو ایذاء وتکلیف پہنچائی ، اور جس شخص نے اللہ تعالی کو ایذاء وتکلیف پہنچائی قریب ہے کہ وہ اسے اپنی پکڑ میں لے لے‘‘۔
امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هَذا حديثٌ غريبٌ لا نعرِفُه إلّا مِنْ هَذا الوجهِ".
(المصدر السابق)
ترجمہ:
’’یہ حدیث (سند کے اعتبار سے) غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں‘‘۔
علامہ مناوی رحمہ اللہ"فيض القدير شرح الجامع الصغير"میں لکھتےہیں:
"(ت) في المناقب (عن عبد الله بن مغفّل) ... واستغربَه. قال الصّدر المناويُّ: وفيه عبدُ الرحمن بنُ زيادٍ: قال الذهبيُّ: لا يُعرف. وفي الميزان: في الحديثِ اضطرابٌ".
(فيض القدير، حرف الهمزة، 2/98، رقم:1442، ط: المكتبة التجارية الكبرى-مصر)
ترجمہ:
’’(امام) ترمذی (رحمہ اللہ) نے "أبواب المناقب"میں (حضرت) عبد اللہ بن مغفل (رضی اللہ عنہ) سے اسے روایت کیا ہے،اور غریب کہا ہے۔(علامہ) صدر مناوی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: اس روایت (کی سند) میں عبد الرحمن بن زیادہے،(حافظ) ذہبی (رحمہ اللہ اس کے متعلق) فرماتے ہیں:"لا يُعرف"(یعنی وہ معروف نہیں ،بلکہ مجہول ہے)۔ نیز (حافظ ذہبی رحمہ اللہ)"ميزان الاعتدال"میں لکھتے ہیں:اس حدیث میں اضطراب ہے‘‘۔
نيز علامہ مناوی رحمہ اللہ "التيسير بشرح الجامع الصغير"میں لکھتے ہیں:
"(ت عن عبد الله بن مغفّل) وفي إِسنادِه اضطرابٌ وغَرابةٌ".
(التيسير بشرح الجامع الصغير، حرف الهمزة، 1/206، ط: مكتبة الإمام الشافعي-الرياض)
ترجمہ:
’’(امام) ترمذی (رحمہ اللہ) نے اسے (حضرت) عبد اللہ بن مغفل (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے، اس کی سند میں اضطراب اور غرابت ہے‘‘۔
علامہ احمد بن محمد بن صدیق غماری رحمہ اللہ"المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي"میں لکھتے ہیں:
"قال الشّارحُ في الكبير: قال الصّدر المناويُّ: فيه عبدُ الرحمن بنُ زيادٍ: قال الذهبيُّ: لا يُعرف، وفي الميزان: في الحديثِ اضطرابٌ.
قلتُ: ليسَ في "الميزان" شيءٌ مِنْ هَذا، والاضطرابُ وقع في اسم عبدِ الرحمن ابن زيادٍ، فقيل كذلك، وقيلَ: عبد اللَّه بنُ عبد الرحمن، وكذلك وقع في رواية أبي نعيم في "الحلية" [8/ 287] ... وقيلَ: عبد الرحمن بنُ عبد اللَّه، وقيل: عبد الملك بنُ عبد الرحمن، وإليك نصَّ الذهبيِّ في "الميزان" [2/ 452]: عبد الرحمن بنُ زيادٍ، وقيلَ: عبدُ اللَّه، وقيلَ غيرُ ذلك عن عبد اللَّه بن مغفّل حديثُ: "اللَّهَ اللَّهَ في أصحابيْ"، تفرّد عنه عَبِيدة بنُ أبي رائطة، قال ابنُ معين: لا أعرِفُه اهـ.".
(المداوي، حرف الهمزة، ج:2، ص:193-194، رقم:740، ط: دار الكتبي- القاهرة)
ترجمہ:
’’شارح( علامہ مناوی رحمہ اللہ ) "الشرح الكبير (فيض القدير شرح الجامع الصغير)"میں لکھتے ہیں:(علامہ) صدر مناوی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: اس روایت (کی سند) میں عبد الرحمن بن زیادہے،(حافظ) ذہبی (رحمہ اللہ اس کے متعلق) فرماتے ہیں:"لا يُعرف"(یعنی وہ معروف نہیں ،بلکہ مجہول ہے)۔ نیز (حافظ ذہبی رحمہ اللہ)"ميزان الاعتدال"میں لکھتے ہیں:اس حدیث میں اضطراب ہے۔
میں (علامہ احمد بن محمد بن صدیق غماری رحمہ اللہ)کہتا ہوں:"ميزان الاعتدال"میں اس میں سے کوئی کلام نہیں ہے(یعنی بعینہ یہی کلام اس میں مذکور نہیں ہے)۔ اضطراب (حدیث میں واقع نہیں ہوا ،بلکہ اس کی سند میں ایک راوی)عبد الرحمن بن زیاد کے نام میں واقع ہوا ہے،چنانچہ (اُس کانام )۱۔ ایک قول کے متعلق اسی طرح ہے(یعنی عبد الرحمن بن زیاد)۔۲۔ایک قول کے مطابق عبد اللہ بن عبد الرحمن ہے،"حلية الأولياء"(۸/۲۸۷)میں (حافظ) ابو نعیم (اصفہانی رحمہ اللہ) کی روایت میں اسی طرح ہے۔۔۔۳۔ایک قول کے مطابق عبد الرحمن بن عبد اللہ ہے۔۴۔ایک قول کے مطابق عبد الملک بن عبد الرحمن ہے۔"ميزان الاعتدال"(۲/۴۵۲) پر (حافظ) ذہبی (رحمہ اللہ) کی عبارت ملاحظہ کیجیے:"عبد الرحمن بنُ زيادٍ: وقيلَ: عبدُ اللَّه، وقيلَ غيرُ ذلك عن عبد اللَّه بن مغفّل حديثُ: "اللَّهَ اللَّهَ في أصحابيْ"، تفرّد عنه عَبِيدة بنُ أبي رائطة، قال ابنُ معين: لا أعرِفُه اهـ." (عبد الرحمن بن زیاد نے (ایک قول کے مطابق (اُس کانام )عبد اللہ ہے، اس کے علاوہ اور اقوال بھی ہیں )۔(حضرت) عبد اللہ بن مغفل (رضی اللہ عنہ ) سے حدیث :"اللَّهَ اللَّهَ في أصحابيْ"( اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے بارے میں) روایت کی ہے، عَبِیدہ بن ابو رائطہ ( اس روایت کو) اس سے( روایت کرنے میں) متفرد ہے، (حافظ یحیی)ا بنِ معین (رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں:میں اسے نہیں جانتا (یعنی وہ معروف نہیں ،بلکہ مجہول ہے)‘‘۔
امام بیہقی رحمہ اللہ"شعب الإيمان"میں مذکورہ حدیث ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"وقد ذكرنا شواهدَه في كتاب الفضائل".
(شعب الإيمان، حب النبي-صلى الله عليه وسلم-، 3/93، رقم:1424، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع-الرياض)
ترجمہ:
’’ہم نے "كتاب الفضائل" میں اس حدیث کے شواہد ذکر کیے ہیں‘‘۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت:"اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَه" سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم اس کے شواہد موجود ہیں، جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کرسکتے ہیں۔
۷۔روایت:"خيرُ القرونِ قَرنِيْ ... إلخ"کی تحقیق:
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ "الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة"کی تعلیقات میں مذکورہ الفاظ کے متعلق لکھتے ہیں:"هذا اللفظُ(أيْ: خيرُ القرون قَرنيْ) لم أجدْه في الصّحيحن، أو غيرِهما مما رجعتُ إليه من المصادر الحديثيّة".(یہ الفاظ (یعنی"خیرُ القرون قَرنیْ") "صحيحين"(بخاری ومسلم) ،اوران کے علاوہ دیگر حدیثی مصادر کی مراجعت کےدوران مجھے نہیں مل سکے)۔البتہ ان کے قریب قریب مختلف الفاظ حدیث کی کتابوں میں مذکورہیں،چنانچہ "صحيحين"میں یہ روایت درج ذیل مختلف الفاظ سے مذکور ہے:
۱۔حدّثنا آدم، حدّثنا شعبة، حدّثنا أبو جَمرة، قال: سمعتُ زهدم بنَ مُضرِّب، قال: سمعتُ عمران بنَ حُصين -رضي الله عنهما-، قال: قال النبيّ -صلّى الله عليه وسلّم-: خيرُكم قرنيْ، ثم الذين يلونَهم، ثم الذين يلونَهم ... إلخ".
(صحيح البخاري، كتاب الشهادات، باب لايشهد على شهادة جور إذا أُشهد، 3/171، رقم الحديث:2651، ط:دار طوق النجاة/صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضل الصحابة، 4/1964، رقم الحديث:2535، ط:دار إحياء التراث العربي)
ترجمہ:
"حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھروہ جوان کے قریب ہوں،پھر وہ جوان کے قریب ہوں۔
۲۔"حدثّنا محمد بنُ كثير، أخبرنا سفيانُ عن منصورٍ عن إبراهيمَ عن عَبِيدة عن عبد الله -رضي الله عنه- عن النبيّ -صلّى الله عليه وسلّم- قال: خيرُ الناس قرنيْ، ثمّ الذين يلونَهم، ثمّ الذين يلونَهم ... إلخ".
(صحيح البخاري، كتاب الشهادات، باب لايشهد على شهادة جور إذا أُشهد، 3/171، رقم الحديث:2652/صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضل الصحابة، 4/1963، رقم الحديث:2533)
ترجمہ:
"حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لوگوں میں سب سے بہترین میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھر وہ جوان کے قریب ہوں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں۔"
۳۔"حدّثني إسحاق، حدّثنا النضر، أخبرنا شعبةُ عن أبي جَمرة، سمعتُ زهدم بنِ مُضرِّب، سمعتُ عمران بنَ حُصين -رضي الله عنهما-، يقول: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: خيرُ أمّتيْ قرنيْ، ثمّ الذين يلونَهم، ثمّ الذين يلونَهم ... إلخ".
(صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، 5/2، رقم الحديث:3650، ط:دار طوق النجاة)
ترجمہ:
"حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت میں سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھروہ جوان کے قریب ہوں ،پھروہ جو ان کے قریب ہوں۔"
۴۔"حدّثنا سعد بن حفص، حدّثنا شيبان عن منصورٍ عن إبراهيمَ عن عَبِيدة، عن عبد الله۔رضي الله عنه-، قال: سُئل النبيّ -صلّى الله عليه وسلّم-: أيُّ الناس خير؟ قال: قرنيْ، ثمّ الذين يلونهم، ثمّ الذين يلونهم ... إلخ".
(صحيح البخاري، كتاب الأيمان والنذور، باب إذا قال: أشهد بالله أو شهدتُ بالله، 8/134، رقم الحديث:6658/صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضل الصحابة 4/1963، رقم الحديث:2533)
ترجمہ:
"حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا:لوگوں میں سب سے بہترین لوگ کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے زمانے کے لوگ(لوگوں میں سب سے بہترین ہیں)،پھر وہ جو ان کے قریب ہوں،پھر وہ جو ان کے قریب ہوں۔"
۵۔"حدّثنا قُتيبة بنُ سعيد، وهنّاد بنُ السري، قالا: حدّثنا أبو الأحوص عن منصورٍ عن إبراهيم بنَ يزيد عن عَبِيدة السَّلماني عن عبد الله-رضي الله عنه-، قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: خيرُ أمّتي القرنُ الذين يلُوني، ثمّ الذين يلونهم ثمّ الذين يلونهم ... إلخ".
(صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضائل الصحابة، 4/1962، رقم الحديث:2533)
ترجمہ:
"حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت میں سب سے بہترین اس زمانے کے لوگ ہیں جو مجھ سے قریب ہے،پھر وہ جو ان سے قریب ہوں، پھر وہ جوان کے قریب ہوں۔
۶۔"حدّثني يعقوب بنُ إبراهيم، حدّثنا هشيم عن أبي بِشرٍ، ح وحّدثني إسماعيل بنُ سالم، أخبرنا هُشيمٌ، أخبرنا أبو بِشرٍ عن عبد الله بنِ شقيق عن أبي هريرة-رضي الله عنه-، قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: خيرُ أمّتي القرنُ الذين بُعثتُ فيهم، ثمّ الذين يلونهم. والله أعلم أذكر الثالث أم لا ... إلخ".
(صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضائل الصحابة، 4/1963، رقم الحديث:2534)
ترجمہ:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت میں سب سے بہترین اس زمانے کے لوگ ہیں جن میں ،میں بھیجا گیا ہوں،پھر وہ جو ان سے قریب ہوں،(راوی کو شک ہے کہ آپ نے تیسرے زمانے کےلوگوں کا ذکر فرمایا تھا، اس لیے فرمارہے ہیں ): اللہ تعالی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ (اس کے بعد)آپ نے تیسرے زمانے کےلوگوں کا ذکر فرمایا تھا یانہیں۔"
۷۔وحدّثنا قُتيبة بنُ سعيد ومحمد بنُ عبد الملك الأمويُّ، قالا: حدّثنا أبو عَوانة، ح وحدّثنا محمد بنُ المثنّى، وابنُ بشارٍ، قالا: حدّثنا معاذ بنُ هشامٍ، حدثنا أبيْ، كلاهما عن قتادة عن زُرارة بنِ أوفى عن عمران بنِ حُصين۔رضی اللہ عنہما۔، عن النبيّ ۔صلّى الله عليه وسلّم۔، بِهذا الحديث: خيرُ هذه الأمّة القرنُ الذين بُعثتُ فيهم، ثمّ الذين يلونهم . زاد في حديث أبي عَوانة، قال: واللهُ أعلم، أذكر الثالث أم لا، بِمثل حديث زهدمٍ".
(صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضائل الصحابة، 4/1965، رقم الحديث:2535)
ترجمہ:
"حضرت عمر ان بن حصین رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں:اس امت میں سب سے بہترین لوگ اس زمانے کے لوگ ہیں جن میں، میں بھیجاگیاہوں،پھر وہ جوان سے قریب ہوں۔ابوعوانہ کی حدیث میں بھی زہدم کی حدیث کی طرح اس کے بعد یہ اضافہ ہےکہ آپ نے فرمایا:اللہ تعالی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ آپ نے تیسرے زمانہ کے لوگوں کا ذکر فرمایا تھا یانہیں۔"
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ"خیرُ القرون قَرنیْ"کے الفاظ بعینہ تو حدیث سے ثابت نہیں ہیں،البتہ اس کے قریب قریب مختلف الفاظ احادیث مبارکہ میں موجود ہیں، اس لیے خطبہ جمعہ ،ودیگر مواقع پر احادیث مبارکہ سے ثابت شدہ الفاظ کو پڑھنے اور بیان کرنے کا اہتمام کرناچاہیے۔
" الأجوبة الفاضلة لللأسئلة العشرة الكاملة"میں ہے:
"هذا اللفظُ (أيْ: خيرُ القرون قَرنيْ) لم أجدْه في الصّحيحن، أو غيرِهما مما رجعتُ إليه من المصادر الحديثيّة".
(الأجوبة الفاضلة، التلعيقات الحافلة على الأجوبة الفاضلة، ص:27، ط:مكتب المطبوعات الإسلامية)
"شرح صحيح البخاري لابن بطال"میں ہے:
"قوله (صلّى الله عليه وسلمّ) : (خيرُكم قرنىْ، ثمّ الذين يلونهم، ثمّ الذين يلونهم) لأنّه يفتحُ لهم لِفضلِهم، ثمّ يفتحُ لِلتابِعين لِفضلِهم، ثمّ يفتحُ لِتابعِيهم لِفضلِهم، وأوجبَ الفضل لِثلاثة القرُون، ولم يذكر الرابعَ، ولم يذكر فضلاً، فالنصرُ فيهم أقلُّ، واللهُ أعلم".
(شرح صحيح البخاري لابن بطال، كتاب الجهاد، باب من استعان بالضعفاء والصالحين في الحرب، 5/91، ط:مكتبة الرشد-الرياض)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144105200590
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن