بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رطب و یابس قرآن کی تعبیر کو ضعیف اور موضوع احادیث پر مشتمل کتاب کے لیے استعمال کرنا


سوال

قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے : وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ

اکثر کتب جو ضعیف اور بہت کمزور احادیث سے بھری ہوں ۔ ان کے بارے میں بعض علماء جو یہ لکھتے بولتے ہیں وہ تو رطب و یابس سے بھری ہوئی ہے ۔(مطلب ان کا یہ ہوتا ہے کہ فلاں کتاب میں تو ضعیف و صحیح روایات دونوں ہیں) اس کا کیا مطلب ہے ۔ دونوں میں کیا فرق ہے ؟ یا یہ جملہ نہیں بولنا چاہیے ؟

جواب

رطب ویابس ایک محاروہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اس کااردو میں مطلب ہوتا ہے خشک و تر، سوکھا گیلا، بُرا بھلا، خوب وزشت، نیک وبد وغیرہ۔یعنی کسی بات کے احاطہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی چیز۔

قرآن مجید کی آیت مبارکہ  :

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِين (6/59)

کا معنی ہے :  ” اور اللہ ہی کے پاس ہیں کنجیاں (خزانے) تمام مخفی اشیاء کی ان کو کوئی نہیں جانتا ہے بجز اللہ تعالیٰ کے۔  اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں (پڑتا) اور نہ کوئی تر اور خشک چیز (گرتی ہے) مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔(بیان القرآن) 

یہاں پر رطب ویابس کی تعبیر  اللہ کے علم کے لامتناہی اور محیط ہونے کے لیے استعمال ہوئی ہے یعنی تمام کائنات پر علم باری تعالیٰ کا حادی ہونا تر اور خشک کے عنوان سے ذکر فرمایا، اور فرمایا کہ یہ سب چیزیں اللہ کے نزدیک کتاب مبین میں لکھی ہوئی ہیں، کتاب مبین سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک لوح محفوظ ہے، اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد علم الٰہی ہے۔

اسی طرح جس حدیث کی کتاب میں ہر طرح کی احادیث ہوں اس کے لیے بھی یہ تعبیر استعمال کی جاسکتی ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں