میری ایک دکان ہے جس میں، میں عطر اور اسٹیشنری بیچتاہوں.ذی الحجہ کے مہینے میں اس کا سال پورا ہوچکا ہے . اب میں اس کی زکاۃ ادا کرنا چاہتا ہوں. دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا میں اپنی زکاۃ کی ادائیگی عطر اور اسٹیشنری کی صورت میں کرسکتا ہوں یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کے طور پر عطر اور اسٹیشنری دی جاسکتی ہے، زکاۃ کی ادائیگی میں دونوں کی قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوگا۔
المبسوط للسرخسي میں ہے:
(قَالَ): وَيُجْزِئُهُ أَنْ يُعْطِيَ مِنْ الْوَاجِبِ جِنْسًا آخَرَ مِنْ الْمَكِيلِ وَالْمَوْزُونِ أَوْ الْعُرُوضِ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ بِقِيمَتِهِ، وَهَذَا عِنْدَنَا، وَقَدْ بَيَّنَّاهُ. ( كتاب الزكوة، باب العشر، ۲ / ۳۰۲، ط: دار المعرفة)
المحيط البرهاني في فقه النعماني میں ہے:
" وذکر محمد رحمه الله في «الرقيات» أنه يقوم في البلد الذي حال الحول على المتاع بما يتعارفه أهل ذلك البلد نقداً فيما بينهم، يعني غالب نقد ذلك البلد، ولا ننظر إلى موضع الشراء، ولا إلى موضع المالك وقت حولان الحول؛ لأن هذا مال وجب تقويمه، فيقوّم بغالب نقد البلد كما في ضمان المتلفات إلا أنه يعتبر نقد البلد الذي حال الحول فيه على المال؛ لأن الزكاة تصرف إلى فقراء البلدة التي فيها المال، فالتقويم بنقد ذلك البلد أنفع في حق الفقراء من حيث الرواج، فيجب اعتباره". ( كتاب الزكاة، الفصل الثالث في بيان مال الزكاة، ۲ / ۲۴۶، ط: دار الكتب العلمية)۔ فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144112200299
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن