کیا زکات کی رقم یتیم خانہ میں دی جا سکتی ہے؟ جیسے اسلام آباد میں ایک یتیم خانہ ہے وہاں یتیم بچیاں پڑھتی ہیں اور وہیں قیام و طعام ہوتا ہےتو ادھر الماریوں کے لیے فنڈ کی ضرورت ہے تو اس میں زکات کی رقم دی جا سکتی ہے؟
زکات کی ادائیگی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زکات کی رقم کا کسی مستحق کو مالک بنایا جائے اور وہ اپنے اختیار سے اس کو خرچ کر سکے، اگر زکات کی رقم یتیم خانہ میں اس طور پر دے دی جائے کہ وہاں کسی کو مالک نہ بنایا جائے، بلکہ اس سے الماریاں لے لی جائیں تو اس طرح کرنے سے زکات ادا نہیں ہو گی۔
’’ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحةً، کمامر، ولا یصرف إلی بناء نحو مسجد ولا إلی کفن میت و قضاء دینه. (قوله: نحو مسجد) کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات و کري الانهار والحج والجهاد، وکل مالا تملیک فیه ... ‘‘الخ ( رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف ۲/۳۴۴ ط سعید ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200661
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن