اگر کسی عورت کے پاس 10 ہزار سے 30 ہزار تک کی قیمت کے 10 سے 15 جوڑے ہوں اور وہ ان کے زیرِ استعمال ہوں، اور اگر اس کے پاس سونا ہو یا سونا نہ ہو دونوں صورتوں میں اس پر قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جو شخص مال دار صاحبِ نصاب ہے، یا عید الاضحیٰ کے دنوں میں اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) یا ضرورت سے زائد اتنی چیز یں ہیں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، تو اس پر قربانی واجب ہے، اور اس پر لازم ہے کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرے۔ اور استعمال کے کپڑے ضرورت میں داخل ہیں، خواہ وہ کتنے ہی قیمتی ہوں۔
لہذا مذکورہ عورت کے زیرِ استعمال دس سے تیس ہزار مالیت کے جو جوڑے ہیں انہیں قربانی کے نصاب میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اوپر ذکر کیا گیا قربانی کا نصاب مکمل ہو تو قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں۔
الدر المختار مع الشامیة:
"وشرائطها الإسلام والإقامة والیسار الذي یتعلق به وجوب صدقة الفطر لا الذکور فتجب علی الأنثیٰ".
وفي الشامية:"قوله: (الیسار) بأن ملک مأتي درهم أو عرضاً یساویها غیر مسکنة ... یحتاجه إلی أن یذبح الأضحیة". (۹/۳۷۹ ، کتاب الأضحیة) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200238
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن