میں نے تین(3) سال پہلے دوسری شادی کی ہے، سابقہ بیوی سے چار بچے ہیں ان میں سے ایک معذور ہے اور میری وہ معذور بیٹی میری ماں کے ساتھ ہے (ہم دوسرے شہر میں رہتے ہیں) اور میری موجودہ منکوحہ بیوی اس کی خدمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے. کل رات میں گھر کے مختلف مسائل پر اپنی بڑی بیٹی (جو سابقہ بیوی سے ہے) کےساتھ غصے میں بحث کر رہا تھا تو میرے منہ سے موجودہ بیوی (جو اس وقت سامنے سو رہی تھی) کے بارے میں یہ الفاظ نکلے: "میں اس کو (موجودہ بیوی کو) اس پیٹ (اس کا پیٹ بڑ ا ہے) کےساتھ قبول کر لیا ہوتا اگر یہ میری معذور بیٹی کی خدمت کرتی" یہاں قبول سے میرا مطلب حسنِ سلوک تھا. حال آں کہ نکاح کے وقت معذور بیٹی کے حوالے سے کوئی بھی شرط نہیں رکھی گئی تھی اور ہمارے ازدواجی تعلقات قائم ہیں(لیکن خوش گوارنہیں ہیں) اور دو سال کا ایک بیٹا بھی ہے. لہٰذا میرے اس طرح کہنے سے نکاح پر کوئی اثر پڑا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں میں راہ نمائی فرمائیں!
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ الفاظ کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، نکاح بدستور قائم ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200896
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن