میں نے آج سے 20 سال پہلے ایک بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا جس کا نام تھا پرافٹ اینڈ لاس سیونگ اکاؤنٹ، یہ اکاؤنٹ ضیاء الحق کے زمانے میں بینکوں سے کھلوایا گیاتھا۔ میں یہی سمجھا کی یہ سود سے پاک اکاؤنٹ ہے، اس وقت شاید یہ سود سے پاک تھا۔ لیکن مجھے دو تین ماہ پہلے معلوم ہوا ہے کہ اس اکاؤنٹ میں سود بھی شامل ہوتا ہے، میں اس اکاؤنٹ میں موجود رقم پر ہر سال زکاۃ دیتا رہا ہوں، زکاۃ والی رقم میں سود کی رقم بھی شامل ہوتی تھی۔
حرام رقم پرنہ زکاۃ واجب ہوتی ہے اورنہ زکاۃ کی ادائیگی میں قابلِ قبول ہوتی ہے، لہذا حرام رقم پر جو زکاۃ ادا کی وہ زکاۃ نہیں کہلائے گی، اسی طرح اگر (پاکیزہ مال پر) واجب ہونے والی زکاۃ حرام رقم سے ادا کی ہے تو اتنی زکاۃ دوبارہ ادا کریں ۔
1- "لو کان الخبث نصابًا لایلزمه الزکاة". (المتانة۳۲۱)
۲- "في القنیة: لو کان الخبیث نصابًا لایلزمه الزکاة؛ لأن الکل واجب التصدق علیه". (شامی۲/۲۹۱) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105201116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن