ہم چوں کہ آباءو اجداد سے سید خاندان مشہور ہیں،لیکن یہاں مقامی علماء اعتراض کرتے ہیں،حال آں کہ ہمارے پاس حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنھما تک شجرہ نسب بھی موجود ہے ، کیا معترضین کے کہنے پر ہم سید نہیں رہے؟ اور کیا حسب نسب میں شہرت کافی نہیں جب کہ ہم دادا پردادا سے سید خاندان مشہور ہیں؟
نسب میں شہرت کافی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ سید نہ ہونے پر کوئی واضح ثبوت موجود نہ ہو، لہذا جب آپ لوگ آباؤاجداد سے سید مشہور ہیں، اور آپ کے پاس نسب نامہ بھی موجود ہے تو سید ہونے کے لیے اتنی شہرت کافی ہے۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 388):
"قال: (ولايجوز للشاهد أن يشهد بشيء لم يعاينه إلا النسب.
(قوله: ولا يجوز للشاهد أن يشهد بشيء لم يعاينه) أي لم يقطع به من جهة المعاينة بالعين أو السماع إلا في النسب والموت والنكاح والدخول وولاية القاضي فإنه يسعه أن يشهد بهذه الأمور إذا أخبره بها من يثق به من رجلين عدلين أو رجل وامرأتين، ... وفي الفصول عن شهادات المحيط: في النسب أن يسمع أنه فلان بن فلان من جماعة لايتصور تواطؤهم على الكذب عند أبي حنيفة، وعندهما إذا أخبره عدلان أنه ابن فلان تحل الشهادة، وأبو بكر الإسكاف كان يفتي بقولهما، وهو اختيار النسفي".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200889
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن