بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شبِ جمعہ کو عبادت کے لیے خاص کرنا


سوال

درج ذیل حدیث کی تشریح کردیں اور اس حدیث کی روشنی میں یہ بھی بتا دیں کہ تبلیغ مراکز میں شب جمعہ کو قیام کے لیے مخصوص کرنا کیسا ہے؟

"Sahih Muslim Hadees # 2684 وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْجُعْفِيَّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَاتَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ»."

ابو کریب، حسین یعنی جعفی ، زائدہ ، ہشام ، ابن سیرین ، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کےساتھ مخصوص نہ کرو اور نہ ہی دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے ساتھ مخصوص کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے جو کوئی روزے رکھ رہا ہو۔

جواب

مذکورہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں: "باب کراهیة صیام یوم الجمعة منفردًا" کے تحت ذکر کی ہے، جس کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وفي هذا الحدیث  النهي الصریح عن تخصیص لیلة الجمعة بصلاة من بین اللیالی، ویومها بصوم کما تقدم، وهذا متفق علی کراهيته."

(حاشیة صحیح مسلم:۸/۲۶۲، ط: دارالمعرفۃ)

امام نووی رحمہ اللہ کی بات کا خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث میں شبِ جمعہ کو ہفتے کی دیگر راتوں کے مقابلے میں نماز کے لیے خاص کرنا اور جمعے کے دن کو روزے کے ساتھ خاص کرنا ممنوع ہے، اور اس کی کراہت پر اتفاق ہے۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

"أن النبي لما وجد الله سبحانه قد استأثر الجمعة بفضائل لم يستأثر بها غيرها من الأيام على ما ورد في الأحاديث الصحاح وجعل الاجتماع فيه للصلاة فرضا مفروضا على العباد في البلاد ثم غفر لهم ما اجترحوا من الآثام من الجمعة إلى الجمعة الأخرى وفضل ثلاثة أيام ولم ير في باب فضيلة الأيام مزيدا على ما خص الله به الجمعة فلم ير أن يخصه بشيء من الأعمال سوى ما خصه به اه وهو غاية التحقيق ونهاية التدقيق والوجه الأول هو المعقول لأنه على المقصود أولى لكن لا يظهر وجه نهي اختصاص ليلته من بين الليالي بالقيام مع أنه منهى عنه كاختصاص يومه بالصيام ولعل الوجه أن لا تقتصر أمته على صيام نهاره من بين الأيام وأن لا تنحصر همتهم على قيام ليلته من بين الليالي فإنه كان يجر إلى هجران سائر الأوقات عن إتيان الطاعات والعبادات بل أراد الشارع أن يأخذوا من كل وقت حظهم من الصيام والقيام ولا يخصوا كل نوع من العبادة ببعض الأيام كما هو دأب العوام (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، باب صیام التطوع  : ۲/۲۹۵ ، ط: مکتبۃ امدادیۃ ملتان)."

اس میں بنیادی جو باتیں ذکر کی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ کہ  شارع کی غرض یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے چونکہ جمعہ کے دن کو دیگر ایام میں خصوصیت سے نوازا ہے اور اس میں اجتماع کو لازم قرار دیا ہے ،لہذا اس کے علاوہ کسی اور عبادت کے ساتھ اس کو خاص نہ کیا جائے ، اور  امت کوئی ایک رات عبادت کے لیے مختص نہ کرے ، اور نہ ہی کسی دن کو روزے کے ساتھ خاص کرے ، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ اس مخصوص دن کے علاوہ باقی دنوں میں عمل میں کوتاہی کریں گے ۔

رہی یہ بات کہ مذکورہ حدیث میں ممانعت کی وجہ سے تبلیغی حضرات جو شب جمعہ کا قیام کرتے ہیں ان کا قیام درست ہے یا نہیں ہے ؟ اس کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ قیام اللیل کا لفظ قرآن وسنت میں استعمال کے بارے میں شراح حدیث اور مفسریں کے دو اقوال ہیں ، ایک خاص دوسرا عام ۔

خاص معنی یہ ہے کہ قیام اللیل سے مراد رات صرف نماز کا اہتمام کرنا ، دوسرا یعنی عام معنی یہ کہ قیام اللیل کا اطلاق نماز ، تلاوت ، اور ذکر وغیرہ سب پر ہوتا ہے ۔علامہ انور شاہ صاحب رحمہ اللہ سے منقول ہے :

"واعلم أني متردد في معنى القيام: أنه مأخوذٌ من القيام في الصلاة، أو أنه مقابلٌ للنوم فقط. وعلى الأول معنى قوله: {من يقم} أي من يصلي ليلة القدر فله كذا، وإِن كان مأخوذاً من الثاني فمعناه: من أحيا ليلة القدر فقط، سواء كان بالصلاة أو الأذكار، أو لم ينم، فله كذا كلفظ الوقوف في عرفات، فإنه لا يشترط فيها القيام وإن كان مستحباً(فیض الباری ، باب قیام لیلة القدر من الایمان :۱/۲۰۰،ط: دارالکتب )."

لہذا مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ تبلیغی حضرات شب جمعہ کو کسی عبادت  کے لیے خاص نہیں کرتے ہیں ، بلکہ ان کا مقصد شب جمعہ کے اجتماع سے دعوت وتبلیغ کی فکر ومحںت ہے اور اس محنت کے لیے امت کو تیار  کرنا ہے ، اور اسی مقصد کی یاد دہانی کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔

اور پھر یہ دن متعین کرنا ان جگہوں اور ممالک کی فرصت اور سہولت کے اعتبار سے ہوتے ہیں ، بلکہ بعض جگہوں میں تو ضرورت پڑنے پر دو دن بھی اجتماع ہو جاتا ہے ، لہذا تخصیص تو ویسے بھی نہیں رہی ، کیونکہ تخصیص کے لیے دن خاص ہوتا ہے اور اس صورت میں تخصیص نہیں ہے ، بس ایک انتظامی معاملہ بلا تخصیصٰ کے ہو رہا ہے اس کی گنجائش ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144107200026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں